ذرا نہیں پورا سوچئیے ! تحریر: مجاہد خان

ذرا نہیں پورا سوچئیے ! تحریر: مجاہد خان

ہم بحثیت قوم حسد، بغض اور لالچ میں اس حد تک گر چکے ہیں کہ، خود چاہے کچھ کرسکتے ہو یا نہی، لیکن دوسروں کے ٹانگ کھینچنے کچھ کرنے میں کوئی کسر نہی چھوڑتے۔ اس مرض میں مبتلا ناخواندہ طبقے کی بجائے سب سے زیادہ شکار(بہ نام) تعلیم یافتہ حلقہ ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ ہمارا مطالعے سے دوری ہے۔ ہم پتہ نہی کیوں لیکن من حیث القوم کتاب سے دشمنی پالنے والے ایسے بدبخت بن چکے ہے کہ کہ ہر آفت ہماری مقدر بن چکی ہے اور ہر مسئلہ ہم سے شروع ہوکر ہم ہی پر روک کر ختم ہوتاہے۔
ہاں! یہ بات بجا درست ہے کہ تنقید سب کا حق ہے اور کرنی بھی چاہئے کیونکہ محض تنقید ہی سے تکمیل تک سفر ممکن ہوسکتاہے۔ کیونکہ اختلاف رائے رکھنا سب کا ائینی و اخلاقی حق بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ لیکن ایک بات ضرور ذہن نشین کرنی چاہئے کہ اختلاف یا تقید برائے اصلاح ہو اور مثبت بنیادوں پر ہو۔ اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ جب اس میں کوئی ذاتی مسئلے مسائل کو نی کھسیٹا جائے۔ مثبت تنقید خالص علمی اور تجرباتی بنادوں پر ہونی چاہئے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم میں استدلال اور تنقیدی سوچ و فکر کا مطالعاتی مادہ موجود ہو، ہمیں فلسفے، سائنس، تنقیدی سوچ، اور فکری و ذہنی آزادی کی کوئی خیر خبر ہو۔
لیکن میں بھی کہاں بھینس کے اگے بین بجارہاہوں۔ ہم نے تو قسم کھائی ہے کہ نہ خود اٹھ کر کچھ کرینگے اور نہ دوسروں کو کچھ کرنے دینگے، نہ خود کچھ پڑھ لگھے گے اور نہ ہی دوسروں کو کرنے دینگے۔ ہم دوسروں سے اگے نکلنے کیلئے بجائے یہ کہ اپنے آپ میں وہ صلاحیتیں پیدا کرے، خود ان پر نکتہ چینی اور منفی تنقید شروع کردیتے ہے تاکہ انکا حوصلہ بڑھنے کی بجائے الٹا پست ہو۔
یہ مسئلہ ہے تو کہی ساری جگہوں پر لیکن خصوصاً بذات خود میں نے اس مسئلے کو سوشل میڈیا پر بہت بڑی حد تک پایا ہے۔ یہاں جو بھی کچھ لکھنے، پڑھانے یا کسی اور طریقے سے اپنے سوچ اور فکر کا مطالعاتی و تجرباتی روشنی میں اظہار کرتا ہے تو، بجائے کچھ سوچنے کی، اس پر غور و فکر کرنے کی ہم کوئی خاص نیم پھٹا چشما لگا کر بے جا، کبھی کبھی تو ذاتی، بنیادوں پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ اور ایسی بے بنیاد لفظی گولہ باری شروع ہو جاتی ہے کہ بندہ حیران و پریشان رہ جاتاہے کہ پتہ نہی کونسی بڑی غلطی مجھ سے سرزد ہوئی جو یوں تنقید پہ تنقید ہو رہی ہے اور وہ بھی منفی یا زاتی بنیادوں یا اصولوں پر۔
پر ایک بات بہت خوش آئند ہے کہ اہل علم کو میں نے اکثر ان جیسے مہروں کو نظر انداز کرتے دیکھا ہے۔ یہ ہی اصل میں علم اور علمی طاقت رکھنے والوں کا ہنر ہے کہ وہ ہمیشہ سے اسطرح کی فضولیات پر مسلرانے کے علاوہ کان بھی نہی دہرتے۔
اب اسکے برعکس اگر ایک طرف یہ حلقہ ان تمام تر منظر سے بڑے احسن کریقے سے لطف اندوز ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ یہ اپنی ذمہ داری بھی سمجھتے ہیں کہ اس قابل رشک صورتحال کی علّت و معلول کو باریک بینی سے پرکھ کر اس کا حل نکال لیاجائے۔ کیونکہ کب تک ہم اس ذاتی لڑائیوں میں پھنسے رہینگے، کب تک ہم ایک دوسرے پر تنقید پر تنقید کرتے رہینگے، کب تک ہم ایک دوسرے کی راستو میں رکاوٹیں کھڑی کرینگے۔
اسی لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اب بس کر کے ہم سب اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر کام کرکے کلاس قوم اور اس مٹھی کی خاطر کچھ کر گرزے یا مطالعے کے ذریعے اپنے آپ میں مثبت تنقید کی ہنر کو تقوئیت بخشے۔ اور اگر یہ نہی کر سکتے تو پھر کم از کم جو لوگ اس فعل میں ہیں ان کی جتنی حد تک ممکن ہے حوصلہ افزائی کی کوشش کرے، اور اگر یہ بھی نہی کرسکتے تو پھر کم از کم بلاوجہ کسی پر تنقید سے گریز کریں، کیونک بجائے یہ کہ ان تمام حرکتوں سے اس طبقے پر منفی اژر پڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں