کیا سبسڈی ہماری معیشت کا طویل المدتی حل ہے؟ تحریر: محمد راشد عمران

کیا سبسڈی ہماری معیشت کا طویل المدتی حل ہے؟

حاشر ارشاد صاحب ایک مصنف ہیں اور ملک کے حالیہ معاشی مسائل کے حل پہ روشنی ڈال رہے تھے۔ انکی باتوں میں کچھ اپنے ذاتی خیالات کا بھی اضافہ کرونگا۔
دو تین نکات بڑے اہم ہیں کہ کیا عوامی مطالبات جو اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے سے متعلق ہیں، ان سے کچھ بہتری آئیگی۔ اس سے اگر کوئی بہتری آئیگی تو وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہوگی اگرچہ فائدہ ضرور ہوگا مگر تھوڑا اور مختصر مدت کے لیئے ہوگا۔ ہمارا مسئلہ صرف آئی ایم ایف نہیں ہے بلکہ اس سے بڑے قرض خواہ دوسرے ادارے یا ممالک بھی ہیں۔ اب وہ اپنے پیسے کو مانیٹر بھی کرتے ہیں اور گارنٹی بھی لیتے ہیں تاکہ وہ پیسہ واپس لیا جاسکے۔ وہ شرائط مہنگائی کی صورت میں عزاب بن کے ہمارے اوپر نازل ہوتی ہیں۔ کیا درآمدات کو کم کرکے کوئی ریلیف ممکن ہے، جی ممکن ہے لیکن ایک بار پھر یہ ریلیف مکمل حل ثابت نہیں ہوگا۔
دنیا میں چونکہ اسلحے کی پوری صنعت ہے اور بڑے ممالک کی معیشت میں اسلحے اور دوسرے دفاعی سازو سامان کی فروخت کا بڑا حصہ ہے لہزا وہ ترقی پزیر ممالک کی اسلحہ خریدنے کی خواہش کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے بلکہ وہ عوام کے زریعے اپنے پیسے مع سود وصول کرتے ہیں۔
اسکے علاؤہ ملک عزیز میں بہت بڑی مقدار میں زمین پڑی ہے کہ جسے قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے اور اس پہ منصوبہ بند سرمایہ کاری کرکے ایک بڑی معاشرتی سرگرمی تخلیق کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے زمینوں پہ صرف ہاؤسنگ سکیمز کو پروموٹ کیا ہے اور پلاٹ بیچے ہیں یا پلازے بنا کے فروخت کیئے ہیں، اس سے ملکی معیشت کو لانگ ٹرم قطعی کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ exaggerated ریٹس پہ زمین بیچ کے پراپرٹی فرمز تشکیل دیں گے۔ اگر زراعت پہ توجہ ہو اور صرف کینولا اور زیتون کی کاشت ہی ہماری کھانے کے تیل کی طلب کو پورا کر سکتی ہے۔ اسرائیل جو ہمارا دشمن عظیم ہے اگر وہ صحرا میں ہریالی لاسکتا ہے تو ہم نے کیا صرف ہتھیاروں سے مقابلہ کرنا ہے؟ ہتھیار چلانے کے لیئے بھی معیشت کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ ہماری زمین میں زراعت کا پوٹینشل ہے اور اسکا درست استعمال ہماری درآمدات کو کم کریگا بلکہ برآمدات کو بڑھائے گا۔ اس طرح فارمنگ ہمارے لیئے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
پھر آجاتا جاتا ہے ہیومن ریسورس ، ہمیں سکلڈ لوگ فراہم کرنے ہوں گے۔ ہمارے ہاں ہنر مندی کا شدید فقدان ہے اگر اس جانب توجہ دی جائے اور لوگوں کی پیشہ وارانہ تربیت ہو تو ہم ماہر لوگ دنیا کے مختلف ممالک میں بھیج سکتے ہیں۔ آئی ٹی کی فیلڈ میں بھی سکوپ موجود ہے ہمیں صرف منصوبہ بندی کے ساتھ ان تراکیب کو بروئے کار لانا ہے جو ہمارے لیئے معاون ہوں۔
سبسڈیز سے مہنگائی کو نیچے لانا کسی بھی حکومت کے لیئے ناممکن ہے، لہزا تیل بھی مہنگا ہوگا اور اشیائے خوردو نوش بھی مہنگی ہونگی۔ اب یہ ہمارے حکمرانوں پہ ہے کہ وہ سیاست بچاتے ہیں سبسڈی دیتے ہیں یا پھر لانگ ٹرم منصوبہ بندی کر کے ملک کو خود کفیل بناتے ہیں۔ یہ بھی ہے کہ اسکے لیئے ویژن، اہلیت اور نیت تینوں کا ہونا ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں