پی ٹی آئی ثابت کردے کہ فنڈز ممنوعہ نہیں تو فیصلہ بدلنا ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد(پوائنٹ پاکستان ) چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن نے جو کہا وہ محض آبزرویشن ہے۔ پی ٹی آئی ثابت کردے کہ فنڈز ممنوعہ نہیں تو فیصلہ بدلنا ہوگا۔ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل بیرسٹر انور منصور عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایف آئی اے نے اپنی کارروائی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے تناظر میں شروع کی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کہیں آرڈر، کہیں رپورٹ، کہیں رائے کہا جا رہا ہے۔ میری نظر میں یہ رپورٹ ہے، فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ۔وکیل نے عدالت میں کہاکہ ہمارے کیس میں پارٹی لیڈر نے دستخط کیے لیکن وہ اکانٹس کو مینیج نہیں کرتا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سیاسی جماعتیں چارٹرڈ اکانٹنٹ کے ذریعے یہ تیار کراتی ہیں ؟ جس پر وکیل انور منصور نے جواب دیا کہ بالکل چارٹرڈ اکانٹنٹ تیار کرتا ہے اور وہ بھی پورا پراسس ہوتا ہے۔ اس سے قبل میں نے دیکھا کبھی پارٹی سربراہ نے یہ دستخط نہیں کیے۔ ہمارے کیس میں پارٹی سربراہ نے یہ دستخط کیے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کے صادق و امین نہ ہونے کا کوئی ڈیکلریشن تو نہیں دیا۔ آخر میں الیکشن کمیشن نے صرف ایک نتیجہ اخذ کیا ہے۔ جس پر وکیل نے عدالت کو دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن نے دراصل ڈیکلیریشن ہی دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں تھا کہ وہ ایسا ڈیکلیریشن دے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے جو کہا وہ محض آبزرویشن ہے۔ وکیل انور منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہولڈ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کو شوکاز دیے بغیر وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی کہیں وہ ایسا کرنے نہیں جا رہے، شوکاز نوٹس کرنے ہی پر اکتفا کیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو یہ خدشہ ہے کہ وہ آپ کو نااہل کردیں گے؟۔ جس پر وکیل انور منصور نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ عمران خان کا ڈیکلریشن غلط ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو فارن ایڈڈ پارٹی قرار دیا۔ الیکشن کمیشن کے پاس یہ ڈکلیئریشن دینے کا اختیار نہیں تھا۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کوئی ڈکلیئریشن تو دیا ہی نہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے شوکاز نوٹس جاری کرنے سے پہلے کسی نتیجے پر تو پہنچنا تھا۔ الیکشن کمیشن اس نتیجے پر پہنچے بغیر شوکاز نوٹس جاری نہیں کر سکتا تھا۔چیف جسٹس نے دوران سماعت وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی کے کیا؟ اس کے بجائے آپ مکمل نام (عمران خان) لے سکتے ہیں، جس پر وکیل انور منصور نے جواب دیا کہ معمول کے مطابق آئی کے ہی نکل جاتا ہے۔ میری مراد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ہیں۔چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے مسکراتے ہوئے مزید کہا کہ آپ کے ان سے تعلقات اچھے ہوں گے، ہمارے لیے تو وہ درخواست گزار ہی ہیں۔ جس پر وکیل انور منصور نے عمران خان کیلیے آئی کے کی اصطلاح استعمال کرنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ عمران خان سے متعلق الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں