پاکستان کی معاشی بقا آئی ٹی سے منسلک ہے اور ہمیں اس شعبہ پر خصوصی توجہ دینا ہو گی، وائس چانسلر محترمہ پروفیسر ڈاکٹر روبینہ فاروق

مکوآنہ (پوائنٹ پاکستان )پاکستان کی معاشی بقا آئی ٹی سے منسلک ہے اور ہمیں اس شعبہ پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ گورنمنٹ کالج وومن یونیورسٹی کی وائس چانسلر محترمہ پروفیسر ڈاکٹر روبینہ فاروق سے ملاقات کے دوران فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر ڈاکٹر خرم طارق نے کہا کہ ہمارا تعلیمی نظام تضادات کا مجموعہ ہے۔ پاکستان کی یونیورسٹیاں جو افرادی قوت پیدا کر رہی ہیں اْن میں سے نصف سسٹم میں آہی نہیں رہی۔ جس کی وجہ سے نہ صرف تعلیم کے شعبہ پر خرچ ہونے والی رقم ضائع ہو رہی ہے بلکہ اس سے قومی ترقی کے مقاصد حاصل کرنے میں بھی روکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم جو ہنر اپنے طلبہ کو سکھا رہے ہیں وہ دنیا سے تقریباً ختم ہو رہے ہیں۔ ہمیں اپنے اداروں کو Technology oriented بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مقامی طور پر کرائے جانے والے تجزیہ کے حوالے سے بتایا کہ فیڈمک کے زیر اہتمام بننے والی انڈسٹریل اسٹیٹس میں ہم ٹیکنالوجی پارک بنا ہی نہیں سکتے کیونکہ وہاں انٹر نیٹ، توانائی کے متبادل ذرائع سے فراہمی اور دیگر ڈھانچہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں ڈیٹا سنٹر بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح بہت سے چیلنجز ہیں مگر ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ Incubation سنٹر ز کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ہم ایسے ہنر مند نوجوان پیدا کر رہے ہیں جو تین سے پانچ ڈالر کماتے ہیں جبکہ دنیا میں 500ڈالر کمانے والے ہنر مند تیار کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ایک Animationسٹوڈیو بنایا گیا مگروہ چل نہیں سکا۔ انہوں نے کہا کہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے آئی ٹی کے شعبے کا کئی سو ارب ڈالر کا کام دوسرے ملکوں کو منتقل ہوا مگر پاکستان کو اس میں سے ایک ڈالر بھی نہیں ملا۔ انڈیا کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی آئی ٹی کی آمدن سعودی عرب کو تیل سے ملنے والی آمدن سے کہیں زیادہ ہے جبکہ اس پر ٹیکسٹائل کی طرح بھاری سرمایہ کاری کی بھی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سفر کا آغاز اپنے شہر سے کرنا ہوگا تاکہ آئی ٹی کی وجہ سے عالمی سطح پر اْس کی شناخت فیصیر آباد کے نام سے ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں انڈسٹری اور اکیڈیمیا کو ایک سوچ کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وائس چانسلرز کمیٹی اس سلسلہ میں کوئی کام نہیں کر رہی ہے۔ تاہم اْن کو یکسوئی کے ساتھ سلیبس اور مستقبل کی ویڑن سے ہم آہنگ پالیسیاں تشکیل دینا ہو ں گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم آج یہ کام شروع کریں گے تو پانچ سال بعد ایسی نسل تیارہو سکے گی جو اربوں ڈالر کما سکے۔ ڈاکٹر خرم طارق نے پالیسی سازی میں توازن کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ بے مہار ترقی کے بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک اور تجزیے کے حوالے سے بتایا کہ ہم نے بچیوں کی تعلیم پرتوجہ دی۔ بچیوں نے بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا مگر7سال بعد ہمیں معلوم ہوا کہ طلاقوں کی شرح بے تحاشا بڑھ گئی ہے جس سے ملک کا سماجی ڈھانچہ غیر متوازن ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ لڑکیاں زیادہ پڑھ گئیں مگر اْن کیلئے ہم پلہ رشتے نہ ملے۔ انہوں نے موجودہ فری لانسر کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انٹر پرینوئرشپ اور فری لانسر میں بہت فرق ہے۔ جبکہ فری لانسر صرف Low end jobہے۔
اس وقت فیصل آباد میں 81فیصد فری لانسر ہیں مگر High end کی طرف جانے کیلئے ہمیں مستند ماہرین کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہم فری لانسرز کی بجائے آئی ٹی کے قابل ماہر تیار کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی بنیادی طور پر تخلیقی ذہن رکھتے ہیں اس لئے وہ ہر کام کو”جگاڑ” لگا کے مکمل کر لیتے ہیں مگر جہاں علم کی ضرورت ہوتی ہے وہاں اْن کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فری لانسر شارٹ ٹرم کیلئے اچھے مگر اِن کی وجہ سے ہم میڈیم اور طویل المدتی نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کی جرمنی کی سابق چانسلر انجلینا مرکل سے ملاقا ت کا ذکر کیا جس میں صدر ٹرمپ نے خاص طور پر جرمنی کے ووکیشنل سسٹم کی کامیابی بارے پوچھا۔انجلینا نے بتایا کہ اْن کی تمام یونیورسٹیاں ووکیشنل ٹریننگ پر فوکس کر رہی ہیں جبکہ ووکیشنل ٹریننگ کو دوسری ڈگریوں کے ہم پلہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر خرم طارق نے کہا کہ جدید شعبوں میں جامع، منظم اور متوازن ترقی کیلئے ہمیں ٹیکنالوجی ایکو سسٹم کوفروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آئی ٹی کا 43فیصد کام صرف لاہور میں ہورہا ہے جس میں فری لانسر بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اکیڈیمیا سے مل کر آئی ٹی کے جدید اور عملی نظام کا آغاز فیصل آباد سے کرنا ہوگا۔ اس مقصد کیلئے انڈسٹری اکیڈیمیا پر مشتمل کونسل بنائی جا سکتی ہے جس میں عہدوں کی بندر بانٹ نہ ہو بلکہ یہ کونسل نئی اختراعات کی عملی حوصلہ افزائی کرے اور نصابی اور کتابی علم کے ساتھ ساتھ عملی سکلز سے آراستہ ایسی افرادی قوت تیار کرے جو پاکستان کی شکل تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتی ہو ۔ اس بارے میں ہر سال (skillinex) تجریاتی رپورٹ شائع کی جائے جس میں ہر سال کا تقابلی جائزہ شامل ہو اور ہمیں علم ہو کہ دنیا کو کن ماہرین کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر خرم طارق نے کہا کہ غلطیوں کی نشاندہی کرنا سب سے آسان کام جبکہ اْن کو درست کرنا سب سے مشکل کام ہے اور ہمیں اَب اصلاحاتی ایجنڈے پر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے ڈاکٹر روبینہ سے کہا کہ وہ آئندہ طے شدہ میٹنگ کیلئے جامع ایجنڈا دیں گے جس کے بعد اس پر سیر حاصل بحث کی جائے گی تاکہ آئندہ کیلئے بہترین اور نتیجہ خیز حکمت عملی طے کی جا سکے۔ ڈاکٹر روبینہ نے اپنی یونیورسٹی کے بارے میں مختصراً بتایا اور کہا کہ وہ انڈسٹری اکیڈیمیا تعاون کیلئے کوشاں ہیں۔ جبکہ وومن یونیورسٹی ایسی ہنرمند طالبات تیارکر رہی ہیں جو گھر بیٹھ کے 50ہزار روپے تک ماہانہ کما سکتی ہیں۔
سینئر نائب صدر ڈاکٹر سجاد ارشد نے کہا کہ وہ بھی ایسے شعبوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں جہاں پیسے کے بغیر بزنس ہو سکتا ہے۔انہوں نے تعلیم کے میدان میں محترمہ روبینہ فاروق کی خدمات کو سراہا اور چیمبر تشریف لانے پر اْن کا شکریہ اداکیا۔آخر میں فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے سابق صدر شیخ محمد اشفاق نے گورنمنٹ کالج وومن یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ فاروق کو چیمبر کی اعزازی شیلڈ پیش کیـں

اپنا تبصرہ بھیجیں