دیہی مرکز صحت ساہوکا میں سہولیات کا فقدان ہے۔محمد اقبال انجم

دیہی مرکز صحت ساہوکا میں سہولیات کا فقدان ہے۔

کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔لیکن اس کے لیے صحت مند معاشرہ ہونا ضروری ہے۔اسی وجہ سے ہر منتخب حکومت اپنے شہریوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ساہوکا قصبہ کی آبادی تقریباً تیس ہزار اور گردونواح کے چالیس کے قریب چکوک اور دیہات بھی قصبہ ساہوکا کے ساتھ منسلک ہیں۔ساہوکا قصبہ کی کل آبادی ان چکوک اور دیہات کو ملا کر تقریباً ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔جس کے لیے دیہی مرکز صحت ساہوکا ایک ہے۔اور روزانہ کی بنیاد پر او پی ڈی میں سینکڑوں مریض علاج معالجہ کی سہولت کے لیے آتے ہیں۔ایمرجنسی میں آنے والے درجنوں مریض الگ ہیں۔یہ ہسپتال دریائے ستلج کے پسماندہ علاقے سے منسلک ہے۔لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ یہاں کے سیاسی نمائندوں کی اس قصبہ ساہوکا کی عوام اور ہسپتال پر ایک فیصد بھی توجہ مرکوز نہیں ہے۔بس الیکشن کے دوران قصبہ ساہوکا کو ماڈل ویلج بنانے کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔جو الیکشن ختم ہونے کے بعد ٹھس ہوکر رہ جاتے ہیں۔ہسپتال میں انچارج میڈیکل آفیسر ڈاکٹر محمد امین کمبوہ اور انکی ٹیم جانفشانی سے کام کر رہی ہے۔مگر ہسپتال میں اسپیشلسٹ ڈاکٹر، پراپر میڈیسن، آپریشن تھیٹر، ایمبولینس اور ایکسرے مشین فعال نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد 30 کلومیٹر دور واقع تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بورے والا یا 70کلو میٹر دور وہاڑی ریفر کرنا مجبوری بن جاتی ہے۔ جس سے اس علاقے کے مڈل مین (سفید پوش) افورڈ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔لوگ دیہی مرکز صحت ساہوکا میں مریضوں کو ایمرجنسی حالت میں برائے امراض دل، گردے، جگر،معدہ، حادثات یا ہڈی ٹوٹنے کے علاج کے لیے رجوع کرتے ہیں۔لیکن وہاں ان امراضِ کے ڈاکٹرز تعینات نہ ہونے کی وجہ ڈیوٹی ڈاکٹر مجبوراً فرسٹ ایڈ فراہم کرنے کے بعد فوراً بورے والا،وہاڑی، ملتان یا بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں ریفر کر دیتے ہیں۔اس موقع پر لواحقین اور مریض جو پہلے ہی بیماری سے پریشان ہوتے ہیں۔ دوسرے شہر بورے والا،وہاڑی،یا بہاولپور کا نام سن کر تھر تھر کانپ اُٹھتے ہیں۔کیونکہ سفید پوش اور غریب افراد کا وہاں پہنچنے کیلئے سواری کا انتظام بھاری فیس کے عوض اسپیشلسٹ ڈاکٹرز سے ٹائم لینا،کلینیکل لیبارٹری سے ٹیسٹوں کی مد میں ہزاروں روپے ادائیگی، الٹرا ساؤنڈ, ایکسرے اور ہسپتال میں داخلے کے بعد مزید ٹیسٹوں کیلئے مختلف ڈیپارٹمنٹس میں مریض کو لیکرجانا،کڑا انتظار کرنا،بھاگ دوڑ اور عملے کی منتیں کرنا،خون کا انتظام، مختلف اوقات میں باہر سے دوا انجکشن یا دیگر سامان کیلئے ایک سے دو کلو میٹر دورجانا،ڈسپلن کے نام پر ہسپتال عملے کی ڈانٹ ڈپٹ، ایم آر آئی یا سی ٹی سکین کی بھاری فیسیں، پرچی، ٹوکن کی مختلف کمروں میں جاکر تصدیق کروانا، نازک حالت میں جونیئر ڈاکٹر کا علاج کرنا اور سینئرز کا اپنی مرضی سے وزٹ کرنا، شدید موسمی حالات میں لواحقین کا گھر سے 100 کلومیٹر دور ہسپتال کے باہرفرش پر فقیروں جیسا حال،مریض کی حالت کے مطابق لواحقین بھی’’ادھ موئے‘‘ ہو جاتے ہیں۔ باہر کی اشیاء مثلًا جوس، فروٹ ،چائے، کھانا،آنے جانے کے کرایہ اور اخراجات،ڈسچارج ہونے کے بعد ڈاکٹر کی لکھی ہوئی دوائی کی خریداری،واپسی کے اخراجات وغیرہ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دیہی مرکز صحت ساہوکا میں ایکسرے مشین اور ایمبولینس عرصہ دراز سے خراب پڑی ہوئی ہیں۔آپریشن تھیٹر بھی فعال نہیں ہے۔اور رہی سہی کسر میڈیسن دینے والے اسٹور کیپر نے نکال رکھی ہے۔کوئی اچھا اینٹی بائیوٹک انجکشن یا ٹیبلٹ وغیرہ نہیں ملتی صرف اور صرف پیرا سیٹا مول اور اموکسل کے کیپسول یا کوئی اینٹی الرجک میڈیسن دی جاتی ہے۔حالانکہ کے دیہی مرکز صحت ساہوکا کا سالانہ فنڈ کروڑوں روپے ہے۔جو کہیں بھی خرچ ہوتا نظر نہیں آتا۔سی ای او ہیلتھ،ڈی سی ہیلتھ،اور دیگر اعلیٰ افسران سب کاغذی وزٹ ڈال کر اور فوٹو سیشن کروانے کے بعد سب اچھے کی رپورٹ بناکر رفوع چکر ہو جاتے ہیں۔اہلیان ساہوکا نے وزیر اعلیٰ پنجاب، سیکرٹری صحت جنوبی پنجاب و دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ کہ دیہی مرکز صحت ساہوکا کو کم ازکم اس قابل بنا دیا جائے کہ اس شہر کے سفید پوش لوگ اپنا بھرم قائم رکھتے ہوئے اپنا مکمل علاج اسی ہسپتال میں کرا سکیں۔ سی سی یو، کارڈیالوجی، امراض چشم،امراض اطفال،آرتھوپیڈک، سرجیکل،مراض نسواں، طب، ایف سی پی ایس اسپیشلسٹ اور الٹرا ساؤنڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کو تعینات کیا جائیں۔آپریشن تھیٹر،ایمبولینس اور کلینکل لیبارٹری کو اپ گریڈ کرایا جائے۔تاکہ دوسرے ہسپتالوں میں خواری سے بچا جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں