خصوصی رپورٹ:( ضیاء چترالی)شارلٹ بیلس الجزیرہ سے وابستہ ایک کیوی خاتون صحافی ہے، جو افغانستان میں تعینات ہے۔ شادی سے قبل ہی وہ حاملہ ہوگئی۔ جب بچی کی ولادت کا وقت قریب آیا تو اس نے وطن واپسی کیلئے کاغذات جمع کرا دیئے۔ لیکن نیوزی لینڈ کی حکومت نے کورونا کی وجہ سے دروازے بند کردیئے ہیں۔ جب یہ الجزیرہ کے ہیڈ آفس (دوحہ، قطر) پہنچی تو اسے بتایا گیا کہ اس کی واپسی کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔
نیوزی لینڈ میں 10 دن قرنطینہ گزارنے کے بعد ہی شہریوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت ملتی ہے۔ شارلٹ اپنی بچی کو قطر میں بھی جنم نہیں دے سکتی، کیونکہ وہاں غیر شادی شدہ خاتون کا ماں بننا جرم ہے۔ اس لئے شارلٹ بیلس نے افغان حکام سے رابطہ کیا تو اسے خوش آمدید کہا گیا۔
شارلٹ کے مطابق میں نے افغان حکام سے پوچھا کہ کیا میں افغانستان میں اپنی بچی کو جنم دے سکتی ہوں؟ جس پر حکام نے جواب دیا ہم آپ کے لیے خوش ہیں، آپ آ سکتی ہیں اور آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ بس لوگوں کو یہ بتائیں کہ آپ شادی شدہ ہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہوا تو ہمیں کال کریں اور بالکل فکر نہ کریں، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق شارلٹ بیلس لکھتی ہیں کہ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اگست میں، میں طلبہ سے پوچھ رہی تھی کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق یقینی بنانے کے لیے کیا کریں گے اور اب میں وہی سوال اپنی ہی حکومت سے کر رہی ہوں۔ انہوں نے نیوزی لینڈ میں ایم آئی کیو اور امیگریشن حکام کو 59 دستاویزات فراہم کی تھیں جن میں ماہر امراض نسواں کے خطوط، ڈیلیوری کی تاریخ، طبی دستاویزات کے ساتھ یہ بھی درخواست کی تھی کہ وہ افغانستان میں ہیں۔ اس کے باوجود درخواست مسترد ہوگئی۔ مطلب انہی اجڈ، گنواروں اور حقوق نسواں کے دشمن جنگجووں نے اس خاتون کو ویلکم کہا، جنہیں دنیا تسلیم کرنے کو ہی تیار نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: داڑھی مردانہ وجاہت اور حسن و جمال کو کم نہیں، بلکہ چار چاند لگا دیتی ہے




