ہماری سو سائٹی اور جدلیات : اجمل صدیقی

میرے teen age میں جو عام انٹرٹینمنٹ تھی ۔
وی سی آر تھا یا پی ٹی وی وہ بھی کرایے پہ، سکول اور گھر پہ سخت ماحول ہوتا تھا ۔کسی بھی قسم کی reading کو سوائے نصابی کتب کے عقیدے اور اخلاق کے لئے خطرناک تصور کیا جاتا تھا سکول میں جو ٹیچر زیادہ تشدد کرتا تھا ۔تھانے مین جو ایس ایچ او زیادہ تشدد کرتا اور پنجابی فلموں میں زیادہ بندے مارتا تھا وہ متحرم اور ہیرو ہوتا تھا۔

آزاد روحوں کے لئے بڑا مشکل جیون تھا ۔سینما دیکھنا اعلی درجے کی عیاشی تھی ۔لوگ جوق در جوق کئی شو دیکھتے ۔سینما میں” ٹوٹے ” کا شدید مطالبہ ہوتا تھا ۔۔عشق خطوط سے چلتا تھا بلکہ خطوط پہ پلتا تھا ۔عید کارڈ لکھے جاتے تھے ۔پورن فلموں کو تب بلیو پرنٹ کہتے تھے ۔جو وی سی آر لاتے یہ “سوغات “بھی لاتے تھے ۔

سب رنگ کے رسالے کچھ ملے وہ پڑھے ۔نسیم حجازی اسلم راہی پھر ممتاز مفتی اور اشفاق احمد
مجھے ڈراموں کا اتنا شوق نہیں رہا نیلام گھر اندھیرا اجالا یاد ہے ۔
میں نے چھپ چھپ کر کارل مارکس اور غلام احمد پرویز کو پڑھنا شروع کیا ۔کرشن چندر اورمنٹو
انگریزی کتابستان کی لغت اور اردو مین فیروز سنز کی لغت جذب کرنی شروع کی ۔نہ کسی لڑکی کو بلانے کی جرات کی نہ کسی کا پیچھا کیا اور نہ عشق کے چکر میں پڑا۔

افغانستان کا جہاد ،دھماکے ،شیعہ سنی کی لڑائی،مہنگائی ،کرپشن مقامی سیاست میں برادری ، دھاندلی ،کشمیر کی آزادی ،نواز شریف خاندان ،بھٹو خاندان اور مارشل لا سے میرا ذہن ان سیاسی پس منظر بنا بلکہ مجھے سیاست اور حکومت سے نفرت ہوگئی ۔
اب نئی نسل کو معلومات اور تفریح کا بہت بڑا سمندر میسر ہے ۔
خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے لڑکیاں اور لڑکے مرضی سے relationship بنا رہے ہیں شادیاں بھی کرریے ہیں ۔
وڈیو لیکس آرہی ہیں ۔سب ننگے ہورہے ہیں ۔ملمع اتر رہا ہے ۔گھٹن بھی نکل رہی ہے ۔
سوشل میڈیا پہ لوگ بلا رنگ ونسل و مذہب کے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں ۔میڈیا نے سب کو ننگا کردیا اسٹبلشمنٹ سیاسی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں کو ہمارا لمحہ لمحہ ریکارڈ ہورہا ہے یہ سب جدلیاتی سیکم ہے تاریخ کی ۔ٹیکنالوجی کسی کو مقدس اور حتمی اتھارٹی نہیں رہنے دیتی۔۔اب کتابیں اور مواد بہت ہے لیکن concentration نہیں۔
زندگی اپنے رستے خود بنا لیتی ہے ۔لوگوں کو سوشل میڈیا کی اخلاقیات جلد یا بدیر سمجھ آجائیں گی.

اپنا تبصرہ بھیجیں