آج اپنی موضوع کی ابتدا عمرانیات کی ایک مشہور جملے” سوشلائزیشن (Socialisation) ایک ایسی طریقۂ کار/طرز ہے جس میں انسان اپنی پیدائیش سے لیکر اپنی اخری سانس تک سیکھنےاورسمجھ بوجھ حاصل کرنے کی عمل کو جاری رکھتا ہے” ،سے کرنا چاہوگا اور پھر اسے اپنی اصل موضوع سے جوڑنے کی کوشش کروگا۔اسی لئے دعا ہے کہ فطرت میرے قلم کو صحیح اور موزون لکھنے کی طاقت عطا فرمائیں۔
انسان جیسےہی اس دنیا میں انکھ کھولتا ہے اور دیرے دیرے وقت گزرتا چلا جاتا ہے تو وہ اپنے ارد گرد ماحول میں مختلف چیزوں کا معائنہ اور غور و فکر شروع کرنے لگ جاتا ہے۔ سب سے پہلے وہ اپنی مادری زبان کی سمجھ بوجھ حاصل کرلیتاہے اور رفتہ رفتہ اس میں معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ ہر انسان پیدائشی طور پر چند سرگرمیوں میں یکساں شوق رکھتا ہے۔ جیسا کہ کھیلنا کھودنا، شرارتیں کرنا، چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑے کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اب اس کے برعکس ہر انسان کو کچھ سرگرمیوں سے ابتدائی عمر میں وابستہ کرنا پڑھتا ہے ، جیسا کہ اسے اچھی عادات سیکھانا، تعلیم کی طرف راغب کرنا، بڑھوں کی عزت کرنا سیکھانا، اچھے اور برے میں میں تمیز سیکھانا اور ان جیسے کئی سارے اور بہت کچھ سیکھانا جس پر اگر وہ صحیح طرح سے عمل پیرا ہو، تو اسے دوسرے لوگوں سے معاشرے میں ممتاز کر سکتا ہے۔
اب یہ تو رہی بچپن کی بات لیکن جیسے ہی انسان بڑھتا چلا جاتا ہے تو زمہ داریاں اور ان کو نوعیت بڑھ جاتی ہے ۔ لہذا جیسے ہی انسان کی عمر کچھ بڑھ کراٹھارہ سال ہو جاتی ہے تو تمام جمہوری ریاستوں کی جانب سے بھی اس کی زہنی پختگی کو تسلئم کر لیا جاتا ہے اور اسے مختلف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے یا کسی سیاسی اور پرلیمانی جماعت میں شامل ہونے کی اجازت ائینی تناظر میں دے دی جاتی ہے، جیسا کی حق رائے دہی استمعال کرنا، سیاسی راۓ رکھنا، سیاسی جلسے جلوسوں میں شمولیت کرنا، پرامن طریقے سے اپنے ائینی حقوق کیلئے جدوجہد، پرامن احتجاج کرنااورلوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے نکلنا وغیرہ وغیرہ۔
اب یہاں تک تو پوری دنیا میں جتنی بھی جمہوری ریاستیں ہیں ان سب میں درجہ بالا بیان کیاگیا طرز یا طریقہ کار تقریباً ایک جیسا ہی ہے ۔ لیکن جب ہم ریاست اسلامی جمہوری پاکستان کی بات کرتے ہے تو یہاں پر صورتحال قطعی مختلف، حیران کن اور افسوس ناک ہیں۔ یہاں عام لوگوں کو تو چھوڑئیں بلکہ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی درجہ بالا سرگرمیوں کی کوئی خیروخبر نہی۔ یہاں بہت سارے عوامل ایسے ہیں جو کہ اس ناقص اور غیر یقینی صورتحال کی زمہ دار ہے، لیکن ان سب میں جس اقدام نے سب سے زیادہ منفی کردار ادا کیا وہ ضیائی دور میں ۱۹۸۴ طلبہ یونین پر پابندی تھی۔ اب ستم ظریفی یہ ہے کہ تب سے لے کر اج تک سیاست کو طلبہ کیلئے حرام قرار دیاگیاہے اور طلبہ کو کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے یا کسی بھی طلبہ یونین سے وابستگی اختیار کرنے کو سختی سے منع کیاگیاہے۔ اب بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں سیاسی عمل دخل کی اجازت تو ریاست کی جانب سے دی جاتی ہے لیکن اسی سیاست کوسیکھنے کی اجازت نہی دی جاتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اگرطلبہ سیاست پر عبور حاصل کرینگے تو ظاہر سی بات ہے وہ پھر اپنے آئینی حقوق سے باخبر ہوکر ان کی حصول کیلئے جدوجہد کرینگے اور سیاسی عمل میں مداخلت کرےگے جو کہ چند عناصر کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے- اس وجہ سے اکثریت طلباء سیاسی سمجھ بوجھ سے محروم رہ جاتے ہے۔ اور یو ہمارا سیاسی ماحول ترقی کی بجائے مزید بدتر ہتاچلابارہاہے-
جبکہ دوسری جانب ہمارے ہاں سیاست اور سیاستدانوں کو اس حد تک، ایک منظم طریقے سے، بدنام کیا گیا ہے، اقتدار کی عوض ایک دوسرے کے ساتھ لڑوایا گیا ہے، چور ڈاکو قرار دیا گیا ہے، غدار اور ایجنٹ تصؤر کردیاگیا ہے، کہ ایک خطرناک حد تک لوگوں کی دلچسپی سیاست سے ختم کروا دی گئ ہے۔ اب جہاں بھی، جس سے بھی پوچھو تو کہتا ہے، نہ بھئی ! سیاست میں کوئی دلچسپی نہی اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق ہے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی اچھا اور ایماندار نہی بلکہ سارے چور، ڈاکو اور مفاد پرست ہے۔ اس کے علاوہ کہے گیں ہم تو (A Political ) ہے، ہمارا تو سیاست سے کوئی لینا دینا ہے ہی نہی، سیاستدان جانے اور سیاست جانے۔ اب یہاں پر ان لوگوں کی غلطی بہت کم حد تک ہے۔ کیونکہ جب اپکا تعلیمی نظام اور تعلیمی ادارے ہی اس حد تک خستہ حال ہیں تو پھر اس سے نکلنے والے طلباء کی تو کیا ہی بات۔
ایک مشہور یونانی فلسفی افلاتون درست فرماتے ہے کہ” سیاست میں حصہ نہ لینے کی ایک سزا یہ بھی ہے کہ بلاخر اپ پر کم تر لوگوں کی حکمرانی شروع ہو جاتی ہے”۔ لہذا سب سے پہلے ہم سب نے اپنی ذہنوں سے یہ بات قطعی طور پر نکالنی ہوگی کہ ہم غیر سیاسی ہے۔ کیونکہ سیاست کا مطلب دھوکہ بازی، فریب، ڈاکے، لالچ، کام چوری، قتل و غارت، دشمنی، خود غرضی، مفادپرستی، انا، اور اسی طرح سینکڑوں اور معاشرتی برائیاں بلکل بھی نہیں اور نہ ہی اسکا مقصد اپنے زاتی مقاصد کیلئے دوسروں کو استمعال کرنا ہے۔
بلکہ سیاست تو درجہ بالا بیان کئے گئے برائیوں سے قطعی مختلف اور اسکے برعکس ہے۔ سیاست تو عبادت اور خدمت کا نام ہے۔سیاست تو اپنے قوم کی خاطر اپنا وقت، توانائی، جان و مال اور خوشیاں قربان کرنے کا نام ہے۔سیاست تو اپنے قوم اور لوگوں کی خوشی اور دکھ کو اپناسمجھنے اور اس میں شامل ہونے کا نام ہے۔ سیاست تو اصولوں کے تحت زندگی گزارنے کا نام ہے۔ سیاست تو اختلاف پر اتفاق کا نام ہے۔ سیاست تو امن، بھائی چارے اور یگانگت کا نام ہے۔ سیاست تو پرامن اور بامقصد جدوجہد کا نام ہے۔ سیاست تو معاشرتی انصاف و رواداری کا نام ہے۔ سیاست تو مثبت اور موثر سوچ کا نام ہے۔
اسی لئے اس “غیر سیاسی” لفظ کو ہمیشہ کیلئے اپنی زہن و دماغ سے باہر نکال پھینکے اور سیاسی بنے۔ کیونکہ انسان کی سوچ، عقل، فکر، گمان اورسمجھ بوجھ سیاسی ہے۔ چند دن پہلے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اور ممبر صوبائی اسمبلی سردار حسین بابک صاحب نے بہت خوب کہا تھا کہ” پختونوں کی پتھر اور پودے سیاسی ہے”، جسکا مطلب بھی یہی تھا جو میں نے اپ سے عرض کیا۔
اب یہ تو رہی بات سیاسی ہونے کہ پر اب ایک اور سوال ہم سب کی ذہنوں میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ باالفرض ہم سیاسی بن بھی جائے اور سیا سی سوچنا شروع بھی کرے تو معاشرے میں کئی سارے سیاسی جماعتیں اور لوگ موجود ہیں جوکہ نہ صرف ایک دوسرے سے الگ ہے بلکہ عموماً مخالف بھی۔ تو اس صورتحال میں ایک تعلیم یافتہ انسان کیلئے بھی کافی کٹھن ہوجاتاہے کہ اپنے لیے کسی درست سمت/جماعت کا انتخاب کرے۔ اس صورتحال میں میری رائے یہ ہے کہ جب بھی ہمیں کسی سیاسی جماعت سے وابستگی اختار کرنی ہو تو وہ عقلی بنیاد پر ہو، عارضی نہ ہو، شخصیت پرستی(Narcissism) کی بنیاد پر نہ ہو۔ اور ان لوگو کا انتخاب کرے جو کہ زاتی مفادات کی بجائے قومی مفادات کیلئے فائدہ مند ہو۔ ان لوگوں کی طرف کبھی نہ جایا جائیں جو ” کرینگے، کرنے والے ہے”۔ بلکہ ایک ایسے سیاسی جماعت کا انتخاب کرے اپنے قوم اور لوگوں کیلئے تاریخی جدوجہد اور کاموں سے اپ کو مطمئن کرے۔ ان لوگوں کی حمایت کریں جو نسل در نسل اس قوم کیلئے قربانیاں دیتا چلا ارہا ہو، جو کہ اس قوم کی معاشرتی، سیاسی اور معاشی بہتری کیلئے کوشاں ہو۔
اسی لئے جب اپ اپنی زات اور مفادات سے بالاتر ہو کر سوچیں گے تو یقیناً ہمارے معاشرے میں لوگ اور جماعتیں موجود ہے جو کہ اپ کو عقلی اور قومی توقعات پر پورا پورا اترنے کی تاریخی صلاحیت رکھتیں ہے۔ لہذا سیاسی بنے اور اپنی اور اپنی خاندان اور قوم کی مستقبل کو سنوارنے میں کردار ادا کیجئے اور اپنی قوم کی خاطر کچھ کر گزریں ۔ تب ہی اپ دنیا میں انے کے مقصد کو ادا کرنے میں کامیاب ہو جاے گے۔ شکریہ




