سدھو موسے والا کے قتل سے یہ سوال ذہن میں آیا کہ پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان جرم کی دنیا میں کیوں اور کیسے آ جاتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس بتا رہی ہیں کہ سدھو موسے والا کے قتل کی ذمہ داری لینے والے گینگ کا سربراہ لارنس بشنوئی نامی 29 سالہ نوجوان ہے۔ یہ نوجوان پنجاب یونیورسٹی (انڈیا) سے ڈگری یافتہ ہے۔ اس کے پاس وکالت کی ڈگری ہے۔ کئی سو نوجوانوں کا گینگ چلاتا ہے۔ اس وقت تہاڑ جیل میں قید ہے۔
اس قتل سے مجھے پاکستان کا ایک مشہور کیس بھی یاد آیا۔ اداکارہ شبنم ڈکیتی کیس۔
یہ 1978 کی بات ہے۔ گلبرگ لاہور میں اس وقت کی مشہور ترین اداکارہ شبنم کے گھر ڈکیتی کی واردات ہوئی۔ یہ ایک ہائی پروفائل کیس تھا۔ پولیس پر پریشر تھا۔ چند دن بعد ملزمان پکڑے گئے۔ لوگوں کی اس وقت حیرانی کی انتہا نہ رہی جب پتہ چلا یہ نوجوان ملک اور لاہور کی بہت اچھی یونیورسٹی جی سی (گورنمنٹ کالج یونیورسٹی) کے طالبعلم ہیں۔ ان طلبا کا سرغنہ فاروق بندیال تھا۔ وہی فاروق بندیال جس کی 2018 کے الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی میں شمولیت اور عمران خان کا اس کو پارٹی جھنڈے والا مفلر پہنانے کی تصویر سامنے آئی تو ایک بار پھر شبنم کیس کا واویلا مچا۔ خان صاحب اور پی ٹی آئی پر تنقید ہوئی تو فاروق بندیال کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔
خیر، میں کیس کے متعلق بات کر رہا تھا۔ یہ مقدمہ ڈکیتی کا درج کیا گیا تھا۔ لیکن مبینہ طور پر اس واردات میں ان پڑھے لکھے اور ملک کی معروف یونیورسٹی کے طالبعلم نوجوانوں نے شبنم کا ریپ بھی کیا تھا۔ (مقدمے میں ریپ کی دفعات نہیں لگائی گئی تھیں) بتانے والے بتاتے ہیں کہ فاروق بندیال کے ماموں کے ایف بندیال اس وقت چیف سیکرٹری کے منصب پر فائز تھا لہذا ریپ والے معاملے کو دبا دیا گیا۔ مقدمہ چلا اور ان نوجوانوں کو سزائے موت ہوئی جو بعد میں صدر ضیاالحق نے عمر قید میں تبدیل کر دی۔ جیلوں میں معافیاں وغیرہ پڑیں اور چند سال بعد یہ نوجوان رہا ہو کر باہر آ گئے۔ اس مقدمے میں ملزموں کے وکیل اس وقت کے مشہور و معروف وکلا حضرات تھے۔ خواجہ سلطان، ڈاکٹر خالد رانجھا، رانا اعجاز، ڈاکٹر باسط،
اداکارہ شبنم اس واقعے کے بعد پاکستان چھوڑ کر بنگلہ دیش چلی گئی اور وہیں کی ہو رہی۔
پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوان جرم کی دنیا کا حصہ کیوں بنتے ہیں؟
طاہر چودھری، ایڈووکیٹ ہائیکورٹ، لاہور۔




