حکومت اور پولیس کیلئے قانون پر عمل کے سوا کوئی رستہ نہیں، عدالت

لاہور(پوائنٹ پاکستان )تفصیلات کے مطابق زیادتی کا شکار یتیم لڑکی نور بخت کی درخواست پر سماعت جسٹس علی ضیا باجوہ نے کی، جس میں ہائی کورٹ نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے محکمہ قانون اور محکمہ داخلہ کے سینئر افسران کو بھی تفصیلی جواب سمیت پیش ہونے کا حکم دے دیا۔درخواست گزار کی جانب سے میاں داد ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور مقف اختیار کیا کہ زیادتی کا یہ کیس پولیس کی ناقص تفتیش کی بہترین مثال ہے کہ رپورٹ میں ڈین این اے میچ ہونے کے باوجود خاتون تفتیشی نے لکھا کہ زیادتی نہیں ہوئی۔ پنجاب بھر میں پولیس جنسی زیادتی کی متاثرہ خواتین کے ساتھ یہی سلوک کر رہی ہے۔وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں خاتون تفتیشی افسر فرزانہ مشتاق نے بھاری رشوت کے عوض ثبوتوں کے خلاف ملزم کے حق میں تفتیش لکھی۔ ناقص تفتیش کی ایک ہی وجہ ہے کہ انسداد جنسی زیادتی ایکٹ پر عمل نہیں ہو رہا۔ اس کیس کو مثال بنا کر دیکھ لیا جائے کہ پولیس جنسی زیادتی کے متاثرین کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ متاثرہ لڑکی نے 2 ماہ سے تفتیش تبدیلی کی درخواست ڈی آئی جی کو دے رکھی ہے، تاہم ملزم اتنا بااثر ہے کہ تفتیش ہی تبدیل نہیں ہونے دے رہا۔ اس موقع پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے زیادتی کے مقدمات کی تفتیش خصوصی ٹیم سے کروانے سے متعلق سمری محکمہ داخلہ کو بھیج رکھی ہے، جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یہ معاملہ سمریاں بھجوانے سے نہیں بلکہ قانون پر واضح عملدرآمد سے حل ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں