کھو جانے والی آوازیں ، تحریر: زینبِ یاسین

کیا تم نے اس کمرے میں گونجتی
آواز کو سنا۔ وہ ہلکی سی آواز تھی۔
کیسی آواز کی تم بات کر رہے ہو۔ یہاں تو کافی دیر سے خاموشی ہے۔ بلکل خاموشی ، انسان کو کھا جانے والی خاموشی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میں نے کافی عرصے سے کوئی آواز سنی ہی نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میں سننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہوں۔ شاید آوازوں کا وجود ختم ہو چکا ہے اور اگر وہ ہیں بھی تو میرے کان اُن کو نہ سننا چاہتے ہیں اور نہ ہی ذہن process کرنا چاہتا ہے۔
وہ شیشے میں دیکھے اپنے عکس سے باتیں کر رہا تھا۔ اس کا عکس اسے یقین دلا رہا تھا کہ وہ جس خاموشی میں سالوں پہلے گھر چکا تھا وہ اب بھی وہیں ہی ہے۔ وہاں کوئی آواز نہیں ہے۔ نہ مدھم آوازیں نہ شوراوغل۔ وہ شخص چیخ رہا تھا کے اگر شور نہیں ہے خاموشی ہی ہے، تو اس میں سکون کیوں نہیں ہے۔ اور عکس اُسے بتا رہا تھا شور کا نہ ہونا ، سکون کی علامت نہیں ہے۔ وہ شخص اس آواز کو سننا چاہتا تھا۔ نم آنکھیں جو ٹکٹکی لگائے خود کو دیکھ رہیں تھیں ایک ہی سوال کر رہیں تھیں تم تو مجھے بہت قریب سے جانتے ہو، تم تو سب جانتے ہو، تمہیں تو معلوم ہے نہ جب پہلے وہ آواز آیا کرتی تھی، میں کچھ بھی کر لیتا تھا وہ آواز وہاں موجود ہوتی تھی مجھے بتاتی تھی میں نے کس طرح کے عمل کو گلے لگایا ہے۔ پر آہستہ آہستہ مدھم ہونے کے بعد وہ آواز آنا کیوں ختم ہوگئی۔ میں اس آواز سے، اس کال سے کتنا تنگ آیا کرتا تھا۔ اور اب مجھے ؤہ یاد آتی ہے۔ مجھے اس کا بار بار دماغ پر گنتی بجانا یاد آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے مجھے کیسی بہت پیارے نے, میرے اپنے نے بے اسرl کر دیا ہے۔
وہ عکس ایک مخلص دوست کی طرح اس کی بات سن رہا تھا۔ اور جب اس نے اپنی بات مکمل کر لی تو اس نے نہایت پیار بھرے لہجے میں اس سے پوچھا تو تم نے وہ آواز دوبارہ سننے ک لیے کیا کیا۔؟ کوئی مشقت کی ؟ اس آواز کی تلاش کی ؟ اس کا پتہ پوچھا؟ اس کو ڈھونڈنے کی کوشش کی؟
وہ نم آنکھیں، لڑکھڑاتی آواز ، کانپتے ہاتھ والا جسم اپنی سسکیوں بھری آواز میں بولا جب اس آواز کو پہچاننے نکلا تو بہت سے شور شرابے میں پھنس گیا۔ باقی آوازیں اس آواز سے دلچسپ معلوم ہونے لگیں ۔ میں اُن کے پیچھے پڑ گیا۔ وہ سمندر کی ہوا کی طرح کچھ دیر تو میرے دل کو بہائیں لیکن اب مجھے اسی آواز کی تلاش ہے۔ جو پہلے تو اس شور شرابے میں کبھی کبھی سنائی دیتی تھیں اور اپنا پتا بتایا کرتی تھیں لیکن اب وہ کھو چکی ہیں ۔ یا شاید اس کی frequency اس قدر بدل چکی ہے کہ میں اس کو detect ہی نہیں کر ر پا رہا۔ اب سب آوازیں جا چکی ہیں میں اکیلا پڑھ گیا ہوں۔ خوموشی کا ستایا ہوا۔ جس کو سکون کی تلاش ہے۔
جس آواز کی تمہیں تلاش ہے تم اس کا گلا گھوٹ کر اُسّے مار چکے ہو۔ جس سکون کو تم اپنی آغوش میں لینا چاہتے ہو وہ تو اب کسی اور آواز میں تمہارے پاس آئے گا، بس تم اُسّے پہچان لینا اور اس کی بات کو سننا۔ اور یہ کہ کر وہ سایہ غائب ہوگیا
اب آئینے میں وہ صرف اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا۔ اور مختلف آوازوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ دل کی آوازیں، دماغ کی آوازیں ، وہ ضمیر کی آوازیں اور پھر وہ کھو جانے والی خدا کی پکار
~زینب یاسین

اپنا تبصرہ بھیجیں