اسلامی ٹچ اور حب الوطنی ،تحریر : محمد راشد عمران

اسلامی ٹچ اور حب الوطنی

عوامی خطابات میں اسلامی ٹچ دینے کی ضرورت اسلیئے پڑتی ہےکیونکہ یہ حربے پاکستان بننے کے بعد سے لے کر اب تک خوب استعمال ہوئے ہیں۔ اسلامی ٹچ سے لوگ ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر حسب ضرورت انکا استعمال ہوتا ہے۔ اتنی شدت سے استعمال ہوتا ہے کہ اسکے نام پہ ہی مخالف فریق پہ توہین مزہب کا الزام لگا کے کسی نہ کسی ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔ حب الوطنی بھی اسی طرح لوگوں کو نفرت اور محبت پہ مائل کرنے کے لیئے بروئے کار لائی جاتی ہے۔ خود کو محب وطن اور مخالف کو غدار قرار دینا روایت ہے اور بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے۔ اس کی کئی مثالیں تاریخ میں ہیں عظیم قائد محمد علی جناح کی محبوب اور وفادار بہن فاطمہ جناح کے خلاف بھی اس حربے کو آزمایا گیا۔
یہ دونوں طریقے اس وقت تک کارآمد ثابت ہوتے رہینگے جب تک ہم جزباتی لحاظ سے چیزوں کا تعین کرتے رہینگے جب تک ہم شعوری لحاظ سے سمجھ نہیں جاتے کہ کسی بھی گروہ پارٹی یا فرد سے اس حد تک متاثر نہ ہوں کہ اسکی خامی بھی خوبی لگے۔۔۔ کوئی بھی انسان کامل نہیں نہ عقل کل ہے کہ اسکی ہر بات قابل تقلید ہو اور ہر فعل کو نقص سے پاک سمجھا جائے۔ یہ تب ممکن ہوگا جب ہم عقلی لحاظ سے چیزوں کو پرکھیں گے۔ حکمران اشرافیہ نے ہمیشہ زیر دست طبقے کو اپنی طاقت اور ڈھال بنا کے اقتدار کے زینے طے کیئے ہیں۔
مروجہ سیاسی پیٹرن میں عوامی ریلیف صرف نعروں کی حد تک ہے، عملی طور پہ دیکھیں تو سرکار نے گزشتہ دس سالوں میں کتنے لوگوں کو روزگار فراہم کیا، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں چڑھاؤ، مقدار اور معیار میں گراوٹ سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ حکومتیں صرف اقتدار کی طوالت کے لیئے کام کرتی ہیں۔ ہر حکومت ایگزیکٹو تبادلے اپنی موزونیت کے حوالے سے کرتی ہے۔ یہاں مستقل پالیسی کوئی نہیں بلکہ عارضی اور عبوری حل پیش کیئے جاتے ہیں کوئی طویل معیادی ریلیف ممکن ہی نہیں ہوتا۔ لہزا یہاں کوئی بھی سیاسی معرکہ حق و باطل کا نہیں بلکہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیئے عوامی دباؤ بنائے جاتے ہیں اور انتظامی طور پہ کمزور ریاستیں بے بس ہوتی ہیں۔ لوگوں کے لیئے اگر کوئی ممکنہ حل ہے تو وہ اس مروجہ اشرافیہ کے سیاسی نظام کو رد کرنا ہے۔
کل جو کچھ ہوا بلکہ ہر کچھ عرصے میں کسی نہ کسی جماعت کا اسلام آباد پہ احتجاج کے نام پہ عوامی دباؤ ہوتا ہے۔ لیکن کل تو دونوں اطراف سے جو ہوا اس میں حاصل عوامی زلالت ہے بچوں کے سالانہ امتحانات کے پرچے کینسل ہوئے نقل و حرکت میں مسائل آئے ۔ حکومت نے ہینڈل کرنے کا جو منصوبہ بنایا اس نے عوام کو ہی تکلیف دی، لوگ زخمی ہوئے ، بے دریغ شیلنگ کی گئی جو کبھی حکومت وقت کے حق میں نہیں جاتی۔ حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ تصادم سے بچنے کے لیئے کیا اور نہ دوسرے فریق نے تصادم سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف انتظامی طور پہ غلط فیصلے اور دوسری طرف انا پرستی کی انتہا ہوئی کہ ایک گھنٹے کی وہی تقریر جو بار بار دہرائی جاتی ہے اس بار بھی ہوئی اور لوگ خوار کے ہونے کے بعد جلاؤ گھیراؤ کرنے کے بعد فرسٹریٹڈ ہوکے واپس ہوئے۔ بہت کم لوگوں کے زہن میں یہ سوال آئیگا کہ حاصل کیا ہوا، یہ احتجاجی خطاب کہیں بھی ہوسکتا تھا مگر ریاست پہ دباؤ کا یہی طریقہ تھا۔ ادارے سب اوندھے منہ پڑے تھے یہ ایک ریاست کی انتظامی صلاحیت کی کل کہانی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں