ارفع کا نام اور خواب دونوں ارفع ہیں
اس روز میں ارفع ٹاور کے بارہویں فلور پہ اپنے ایک انٹرنیشنل کلائنٹ، جنرل الیکٹرک کی لیڈرشپ ٹیم کی ٹریننگ میں مصروف تھا۔
“آپ کے لئے ثمینہ رندھاوا کی کال آئی تھی۔ وہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں”۔ لنچ بریک میں میری ٹیم نے مجھے بتایا۔
مجھے اس قسم کی ہر روز درجنوں کالز آتی ہیں۔ میں نے بے دھیانی میں کہہ دیا کہ اگلے مہینے کسی وقت بلوا لیجئے گا۔
“وہ ارفع کریم کی والدہ ہیں”۔ جویریہ نے زور دیتے ہوئے کہا۔
“وہ کہاں ہیں؟ میں ان سے ابھی ملنا چاہوں گا”۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
“اسی بلڈنگ کے نویں فلور پہ” جویریہ نے بتایا۔
میں نے لنچ وہیں چھوڑ دیا۔ اگلے تین منٹ بعد میں ارفع کریم فاؤنڈیشن کے آفس کے باہر کھڑا تھا۔
ارفع ٹاور لاہور شہر کی خوبصورت ترین عمارت ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ایسے ایسے عالیشان دفاتر اس بلڈنگ میں ہیں کہ دیکھ کے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک ہفتہ پہلے بھی میں اسی بلڈنگ کے چودہویں فلور پہ ایک اور فارچون ۵۰۰ کمپنی، مَون سینٹو کے ٹاپ لیڈرز کو پبلک سپیکنگ کی دو دن کی ٹریننگ دینے کے لئے آیا تھا۔ اس بلڈنگ میں ہر آفس ایک سے بڑھ کر عالیشان ہے۔
لیکن ارفع فاؤنڈیشن کے دفتر میں قدم رکھتے ہی میرا دل اک دم بجھ سا گیا۔ مجھے زور کا جھٹکا لگا۔ میری توقع کے بالکل برعکس، یہ کوئی عالیشان آفس نہیں تھا۔ شائید یہ اس بلڈنگ کا سب سے گھٹیا کونا تھا جسے زبردستی آفس کا نام دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ بس نام ہی کا آفس تھا۔ کمرے میں فرنیچر کے نام پہ چند ایک ٹوٹی پھوٹی کرسیاں میز پڑے تھے۔ مجھے بعد میں جان کے اور بھی دکھ ہوا کہ اس دفتر کا خرچہ سرکار نہیں اٹھاتی بلکہ ارفع کے والدین اپنی جیب سے ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر ضرورتوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
وہ ارفع کریم جس کے نام پہ یہ شاندار عمارت قائم تھی، اس کی اپنی فاؤنڈیشن کا دفتر کسی طور ارفع کریم کے شایانِ شان نہیں تھا۔ کہاں جنرل الیکٹرک کا محل نما آفس اور کہاں یہ تکونا سا، بے ڈھنگا، بے سروسامانی میں ڈوبا محض ایک کمرہ۔
میں اس دھچکے سے کبھی باہر نکل ہی نہ پاتا اگر ثمینہ رندھاوا صاحبہ گرمجوشی سے آگے بڑھ کر مجھے ویلکم کر کے بیٹھنے کو نہ کہتیں۔
“مجھے ارفع نے آپ سے ملنے کے لئے کہا ہے۔ میں نے اپنی مرضی سے آپ کو فون نہیں کیا تھا”۔
“مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے”۔ میں نے مسکرا کے کہا۔ “میں جانتا ہوں کہ قدرت کب سے مجھے ارفع کریم کے والدین سے ملوانے کی کوشش کر رہی تھی”۔
میں نے انہیں بتایا کہ کس طرح میرے عزیز ترین دوست عمر غنی اور ان کا تھِنک ٹینک مجھے ارفع کریم فاؤنڈیشن کے بورڈ پہ لانے کے لئے قائل کرتا رہا ہے۔ میں نے انہیں اپنی اور ارفع کی خفیہ کمیونیکیشن کے بارے میں بھی بتایا۔
“ارفع کریم سے میرا خاص رشتہ ہے۔ اگرچہ کمپیوٹر اور آئی ٹی سے میرا دور پار کا کوئی تال میل نہیں ہے۔ میرا اور ارفع کا خوابوں کا رشتہ ہے۔ ارفع کریم سے میں کبھی مل نہیں پایا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ارفع کریم سے میں درجنوں مرتبہ ملا ہوں۔ میرا اور ارفع کا ایک روحانی رشتہ ہے۔”
ارفع کی والدہ کے ساتھ اس ایک مختصر ملاقات میں مجھے پتہ چلا کہ ارفع کریم کے نام پہ ٹاور کھڑا کر کے اس سے کروڑوں روپے کمانے اور فوٹو سیشن کروانے کے سوا، کسی حکومت یا کسی ادارے نے عرفہ کریم کی ویژن کو سچ کر دکھانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔
میڈم ثمینہ رندھاوا کے ساتھ اس چالیس منٹ کی ملاقات میں صرف دو چیزوں کا تبادلہ ہوا۔ ایک خوبوں کا اور دوسرا آنسوؤں کا۔
“میرا اور آپ کا درد کا رشتہ ہے۔ ۱۴ جنوری کو میں نے اپنی ماں کو کھویا تھا اور اسی ۱۴ جنوری کو آپ نے اپنی بیٹی کو کھو دیا۔ مجھے اپنی ماں کے خوابوں کو پورا کرنا ہے اور آپ نے اپنی بیٹی کے۔ ہم دونوں کی خوب بنے گی”۔ میں نے میڈم ثمینہ سے اجازت لیتے ہوئے کہا۔
اس سے اگلے روز میری ارفع کریم کے والد، امجد کریم رندھاوا صاحب سے ملاقات طے ہوگئی۔ ایک گھنٹے کی ملاقات، کئی گھنٹوں میں بدل گئی۔ تب مجھے سمجھ آئی کہ ارفع کریم کی اتنی پختہ سوچوں، خوابوں اور خود داریوں کے پیچھے کس شخصیت کی، اور کونسی تربیت کی جھلک تھی۔ کرنل صاحب کی فساحت، علمی بلندی، فنِ گفتگو، سوچ کی گہرائی، نظریات اور صوفیانہ کلام پہ دسترس دیکھی تو سمجھ آیا کہ عرفہ کریم کیونکر اقبالیات پہ ایسی ماہرانہ گفتگو کر لیتی تھی اور کیوں اسے بلہے شاہ سے لے کر بابا فرید تک سب کی دانش از برتھی۔
کرنل رندھاوا کے درویشانہ مزاج سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ کیسے ایک چھوٹی سی بچی دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس، اور ملک کے صدر پرویز مشرف جیسے لوگوں سے کچھ بھی منوا سکنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی اپنی ذات کے لئے ایک ٹکے کے فائدے کی طلبگار نہیں ہوئی ۔ اس کی رگوں میں اس خوددار باپ کا لہو دوڑتا تھا جس نے ایک ایک کر کے اپنی ساری جمع پونجی ارفع کے خوبوں کی خاطر نیلام تو کر دی مگر کسی صدر، وزیر اعظم یا سی ای او کے سامنے عرفہ کے خوابوں کو بیچنے کے رستے کو نہیں چُنا۔
یہ جان کے میرا دل پھٹ گیا کہ ارفع کریم کے مشن کے لئے کسی نے آج تک ارفع کے والدین کو پھوٹی کوڑی بھی پیش نہیں کی۔ اگرچہ انہیں اس کی کوئی طلب بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ پروپیگنڈہ اپنی جگہ پھیلتا رہا کہ ارفع کے والدین نے بِل گیٹس اور پرویز مشرف سے جانے کتنے ملین ڈالر وصول کر لئے ہیں۔ حالانکہ اس جھوٹ کے پلندے کا کوئی سر پاؤں نہیں ہے۔
کرنل امجد رندھاوا وہُ قابلِ تقلید باپ ہے جس نے اپنی عزتِ نفس کو ہر چیز پر، ہر فائدے پر مقدم رکھا۔ جس نے کسی حکومت سے، کسی بین القوامی ادارے سے ایک ڈالر کا فائدہ نہیں لیا۔ اپنی زمینیں، جائدادیں بیچ بیچ کر ارفع فاؤنڈیشن کے خرچے پورے کئے۔ اور اپنی بچ جانے والی زمین کا آخری ٹکڑا بھی ارفع کریم فاؤنڈیشن کے ٹیکنالوجی پارک کے لئے وقف کر دیا۔ سچ یہی ہے کہ انہوں نے صرف دیا ہے، لیا کچھ نہیں ہے۔
ارفع کریم کے والدین کے ساتھ اس مشترکہ ملاقات کے بعد میں نے ہمیشہ کے لئے خود کو، اپنے ادارے کو اور اپنی صلاحیتوں کو ارفع کریم کے خوابوں کو تعبیر دینے لئے وقف کر دیا۔
پچھلے پانچ سالوں میں ہم نے مل کے ارفع کریم کی ویژن کو پورا کرنے کے لئے ان تھک کام کیا ہے۔
میں نے خود اپنا ایک خواب ارفع کریم کے نام کر دیا۔ پاسیبیلیٹیز کا “مائی فرسٹ بائیک” پروگرام جس میں، ہم مستحق بچوں کو ان کی زندگی کی پہلی سائیکل تحفے کے طور پر دیتے ہیں، پچھلے پانچ سالوں سے ارفع کریم کے نام پر وقف ہے۔ ارفع کریم کے والدین، جو ہمیشہ ان پروگراموں کے مہمانانِ خصوصی ہوتے ہیں اپنے ہاتھوں سے بچوں میں سائیکلیں بانٹتے ہیں۔ اور ساتھ میں یہ امید بھی کہ ان بے سہارا بچوں کے خواب بھی پورے ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک پروگرام ہم نے فیصل آباد میں کیا تو واپسی پہ ہم ارفع کریم کی قبر پہ بھی گئے۔ اس کی قبر پہ جا کے وہی سکون محسوس ہوتا ہے جو کسی بڑے صوفی کے مزار پہ محسوس ہو سکتا ہے۔ مجھے لگا وہ مجھ سے کچھ کہہ رہی ہے۔ کچھ وعدہ لے رہی ہے۔
ارفع کے ساتھ میرا رشتہ اور بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اسے مجھ سے جو کام کرونا ہوتا ہے کرو لیتی ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے ہماری بات ہوتی ہے۔ خیالات ایکسچینج ہوتے ہیں۔ خوابوں کو تعبیر کرنے کے منصوبے بنتے ہیں۔

ارفع کریم کے والدین دنیا کے عظیم ترین ماں باپ میں سے ہیں۔ عرفہ کریم کے والدین جہاں ایک طرف اپنی بیٹی کے بے وقت چلے جانے کے صدمے میں ڈوبے رہتے ہیں وہاں وہ ہر وقت اپنی ارفع کے نامکمل منصوبوں کی تکمیل کے لئے سرگرم رہتے ہیں۔
آج سے چار سال پہلے میں نے سرٹیفائیڈ سکسیس کوچ پروگرام شروع کیا تو اس کے تیسرے بَیچ میں کرنل رندھاوا صاحب نے فُل میرٹ پہ، سکالرشپ جیتنے کے بعد شرکت کی۔ انہوں نے چھ ماہ کی سرٹیفکیشن کے تمام مراحل پوری تندہی سے مکمل کئے۔ اس دوران میں انہوں نے اپنی تمام تر علمی بلندیوں کے باوجود جس عاجزی کے ساتھ سیلھنے کی تڑپ اور لگن دکھائی وہ میرے سارے کوچز کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ اس کے بعد والے پروگرام میں میڈم ثمینہ امجد نے بھی کرنل رندھاوا کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے اپنی کوچنگ سرٹیفکیشن مکمل کی۔
میرے ادارے، پا سیبیلیٹیز کے لئے بڑے فخر کی بات ہے کہ ارفع کریم کے والدین ہمارے سرٹیفائیڈ سکسیس کوچ ہیں۔ وہ دونوں میرے ٹاپ ۱۵ کوچز کی فہرست میں شامل ہیں۔ اور یہ مقام انہوں نے میرٹ پر، خالصتاً اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔
پچھلے چار سالوں میں ان دونوں نے میرے ساتھ درجنوں اداروں کے ٹاپ لیڈرز کی کوچنگ اور کوچ ٹریننگ میں مجھے اسِسٹ کیا ہے۔ اور مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ آج اگر کوئی ادارہ اپنے لوگوں کی کوچنگ کے لئے میری جگہ ان دونوں میں سے کسی کو بھی بلا لے تو نتائج وہی ہونگے جو میرے ہونے سے حاصل ہوتے۔
ارفع کریم کے والدین ہمارے خاندان کا حصہ ہیں۔ اور وہ ہر روز اپنی محبت سے ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ ہم ان کے گھر کے فرد ہیں۔
ارفع کریم کے والدین کے بارے میں میری ذاتی ویژن بڑی واضح ہے۔ وہ مستقبل میں “پیرنٹنگ” کے موضوع پر بین القوامی سطح پر گُروز کا درجہ حاصل کرنے والے ہیں۔ چند سالوں میں دنیا انہیں بچوں کی تربیت پر اتھارٹی کا درجہ دے گی۔ ان کی گود نے ارفع کریم جیسی عظیم بچی کی پرورش کی ہے۔ ان سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ بچوں کی تربیت کیسے کرنی ہے۔
آخر میں میری آپ سے گزارش ہے کہ ارفع کریم کو جنم دینے والے اور اس کے خوابوں کو پورا کرنے کی دُھن میں گمُ، ان عظیم والدین کو خراج تحسین پیش کریں۔ اور اس سے بڑھ کے خراجِ تحسین کیا ہوگا کہ آپ ارفع کریم کے مشن کو پورا کرنے میں ان کے ساتھ لگ جائیں۔

تحریر: قیصر عباس(انٹرنیشنل ایوارڈ وِننگ لیڈرشپ کوچ| مصنف، کامیابی مبارک)




