ہمدرد فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام شوریٰ ہمدرد کراچی کا اجلاس

پوائنٹ پاکستان
کراچی پریس ریلیز: ہمدرد فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام شوریٰ ہمدرد کراچی کا اجلاس مورخہ 29دسمبر 2021ءکو ”تعمیر قوم کے تین بڑے ستون تعلیم، معاشی استحکام، دفاع “ کے موضوع پر اسپیکر شوریٰ ہمدرد جسٹس (ر)حاذق الخیری کی سربراہی میں ہمدرد کارپوریٹ ہیڈ آفس میں منعقد ہوا، جس میں سابق سینئر بیوروکریٹ شفیق الرحمن پراچہ کو بہ طور مہمان مقرر مدعو کیا گیا۔ اجلاس میں صدر ہمدرد فاﺅنڈیشن پاکستان محترمہ سعدیہ راشد نے بھی شرکت کی۔
جسٹس (ر) حاذق الخیری نے اجلاس کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو سنگین نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے ، جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے تعلیم، اقتصادی ترقی اور دفاع کی اہمیت پر بارہا زور دیا اور ان کی اہمیت اُجاگر کی۔
مہمان مقرر معروف دانشور اور سابق بیوروکریٹ شفیق الرحمن پراچہ نے کہا کہ قائد اعظم نے پاکستان قائم کرکے مسلمانان برصغیر پاک و ہند کے لیے عظیم تاریخی خدمت سر انجام دی ہے۔ علم و حکمت کا حصول اسلامی تعلیمات کا بنیادی ستون ہے۔ اسلام نے جو دنیا میں علمی تحریک پیدا کی اس جیسی کوئی اور نظیر نہیں ملتی۔لہٰذا پاکستانیوں پر فرض ہے کہ وہ جدید علم کو حاصل کریں۔ اسلامی تہذیب کا عروج مسلمان سائنسدانوں کی سائنسی ایجادات اور دریافت کی بنیاد پر ہوا۔علم سے دوری کی وجہ سے مسلم معاشرہ زوال پذیر ہونے لگا۔ ایسے موقع پر صرف سر سید احمد خان تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں میں علم کی اہمیت ایک بار پھر اُجاگر کی۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کواس وقت سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، جن سے نمٹا گیا یا حل نہ کیا گیا تو طویل مدت میں ملک کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک موثر افرادی قوت پیدا کرنے کے لیے تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا بہت ضروری ہے۔
پروفیسر اخلاق احمد نے کہا کہ تعلیم کا مقصد خواندگی نہیں بلکہ سماجی شعور کو بیدار کرنا اور پروان چڑھانا ہے۔ ابتدائی تعلیم ابتدائی عمر میں ہی بچے کی بنیاد رکھتی ہے۔ تعلیم کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔

کموڈور (ر)سدید انور ملک نے معاشی ترقی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے معروضی حالات میں ملک کی بقاءکے لیے اقتصادی ترقی بے حد ضروری ہے۔ ملکی پیداوار کو بڑھانے اور برآمدات میں اضافے کے لیے مقامی سطح پر مینو فیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کرنی ہے تاکہ درآمدی اخراجات میں کمی آئے۔ اس کے ساتھ متبادل توانائی کی ٹیکنالوجی اور وسائل کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
انوار الحق صدیقی نے کہا کہ کردارسازی اور ہنر مندی کی تربیت کے بنا تعلیم لاحاصل ہے۔ قوم میں سیاسی تفاوت کے بجائے مشترکہ مقاصد ہونے چاہئیں۔جب تک مشترکہ اہداف و مقاصد واضح نہیں ہونگے ، ملک کی مجموعی ترقی ممکن نہیں۔
سینیٹر عبدالحسیب خان نے موثر نظام انصاف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں انصاف کا نظام بہتر ہو گا تو پاکستان میں سب کچھ بہتر ہو گا۔جاہل اور بیمار قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔اس بات کا ادراک صرف شہید حکیم محمد سعید نے کیا،جنہوں نے ملک میں صحت اور تعلیم کے شعبے کی ترقی کے لیے جدوجہد کی ۔پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔
پروفیسر انور علی جعفری نے کہا کہ قلیل مدت میں معاشی استحکام کے لیے زرعی شعبے پر توجہ دی جائے۔زراعت کو ترقی دے کر پاکستان کی برآمدات بڑھائی جاسکتی ہیں۔ تعلیمی شعبے میں کرپشن کسی صورت برداشت نہیں کی جائے۔ یہ شعبہ ملکی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے۔
محترمہ مسرت اکرم نے کہا کہ پوری قوم تعلیم کے حوالے سے طبقاتی تقسیم کا شکار ہے، جس کی وجہ سے یکساں سوچ کا فقدان ہے۔۔ایک ملک میںیکساں تعلیمی نظام ہونا چاہیے۔ تعلیم ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ملک میں معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
عثمان دموہی نے کہا کہ ملک کی مجموعی ترقی کے لیے طویل المدتی تعلیمی اصلاحات اور قلیل مدتی دفاعی شعبے کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا۔
کرنل (ر)مختاراحمد بٹ نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے درآمدی اخراجات کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرونی قرضوں میں کمی کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔صرف صوبہ سندھ میں لاکھوں بچوں کو بنیادی تعلیم کی سہولیات میسر نہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر شاہین حبیب نے کہا کہ اپنی ماضی کی تمام کوتاہیوں کو ایک طرف رکھ کر ہمیں نئے سرے سے ملک کو ٹھیک کرنے کا عزم کرنا ہے۔ یہ امر اپنی نوجوان نسل کو باور کرانی ہے کہ یہ ایک نظریاتی ملک ہے جس کا مستقبل تخلیقی سوچ ، مشرقی روایا ت اور حب الوطنی میں پنہاں ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان کا مستقبل بہت تابناک و روشن ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں