ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
عروج و زوال کی ایک کہانی
ہمارے گھر میں کیبل 2011 میں لگی۔ اس سے پہلے انٹینا ہوتا تھا۔ جس پر صرف دو ٹی وی چینل پی ٹی وی اور اے ٹی وی آتے تھے۔ اے ٹی وی کے فرح سعدیہ کے مارننگ شو میں پہلی بار عامر لیاقت کو ان کی بیگم کے ہمراہ دیکھا۔ پہلے انٹرویو سے ہی میں ان سے بہت متاثر ہوئی۔ بعد پتہ چلا کہ یہ شخصیت جیو ٹی وی پر عالم آنلائن کرتی ہے۔ اس زمانے کی ہر لڑکی ان کی فین تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عمیرہ احمد کے ناول بہت مشہور ہوتے تھے۔ اور عمیرہ احمد کے ناولوں کے ہیرو کو کوئی تصویری شکل دی جائے تو ڈاکٹر عامر لیاقت کا چہرہ ہی ذہن میں ابھرتا تھا۔ مذہبی شخصیت ، میٹھا لہجہ، خوش گفتار، خوش لباس، فیشن ایبل، داڑھی کی تراش خراش بھی پرفیکٹ۔ مطلب ہر چیز، ہر بات وہ تھی۔ جو کوئی بھی لڑکی اپنے شوہر میں دیکھنا چاہتی تھی۔ اسی لیے اس زمانے میں لڑکیاں دعائیں کرتی تھیں۔ کہ “کاش یہ میرے شوہر ہوتے”۔ رمضان تو عامر لیاقت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔
اتنی زیادہ شہرت، محبت اور عروج کا زوال 2012ء سے شروع ہوا۔ جب جیو کے کسی بندے نے عامر لیاقت کی کیمرے کے پیچھے کی حرکات کی بنی ویڈیو وائرل کردی۔ یہ ویڈیو اکثر لوگوں پر بم بن کر گری۔ عامر لیاقت کی شخصیت کا سحر ٹوٹ گیا۔ عامر لیاقت نے اس ویڈیو کے آنے کے بعد مسلسل غلط فیصلے کیے۔ انھوں نے یہ ظاہر کرنے کیلیے کہ وہ کوئی مذہبی شخصیت نہیں، بلکہ ہنسنے کھیلنے والی شخصیت ہیں۔ اپنے ٹی وی پروگرامز میں بہت اوٹ پٹانگ حرکتیں کیں۔ جس پر بے تحاشا میمز بنیں اور ٹرولنگ ہوئی۔
عامر لیاقت حسین کو اپنی زبان پر بھی اتنا قابو نہیں تھا۔ بہت متنازع بیانات دے دیا کرتے تھے۔ فرقہ وارانہ بیانات، سیاسی بیانات وغیرہ۔ جب کسی شخصیت کے حق میں ہوتے تو تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے اور جب مخالف ہوتے تو ایسی گندی باتیں بھی کر جاتے۔ جو ٹی وی پر کرنے والی نہیں ہوتیں۔ اپنے مفاد کیلیے مذہب کا بھی کھل کر استعمال کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال پہلے جب ایک سروے سامنے آیا کہ پاکستانی سب سے زیادہ نفرت کن شخصیات سے کرتے ہیں تو عامر لیاقت کا نام سر فہرست تھا۔ اگر یہی سروے دس سال پہلے کیا جاتا تو سب سے زیادہ محبت کرنے والی دس شخصیات میں عامر لیاقت کا نام ہوتا۔
اس کے علاؤہ دنیا کی مسلمانوں میں سو، سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیات کی لسٹ میں بھی عامر لیاقت کا نام موجود تھا۔ یہ تقریباً پچھلے دس سال مسلسل خبروں، ٹرینڈز اور میمز وغیرہ میں رہے۔ اور شاید ہی کوئی پاکستانی ہوگا۔ جو ان کی شخصیت سے واقف نہیں ہوگا۔
لیکن ہم پاکستانیوں کو اس معاملے میں بہت تربیت کی ضرورت ہے کہ آپ کسی انسان کی سیاسی اور ٹی وی کی زندگی پر تنقید کرسکتے ہیں۔ مذاق اڑا سکتے ہیں۔ مگر ذاتی زندگی پر نہیں کرسکتے۔ سوائے اس کے کوئی اپنی ذاتی زندگی کو خود ہی کسی پبلک فارم پر ڈسکس کرے۔ لیکن ہم پاکستانیوں نے جو آخری حرکت یہ کی کہ ان کے بیڈروم کی ویڈیوز کو شئیر کیا اور اس پر مذاق بنایا۔ یہ ہمیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ عامر لیاقت اس سے پہلے ہی ٹھکرائے جا چکے تھے۔ بیوی خلع مانگ رہی تھی۔ عمران خان کی پارٹی سے خود نکل گئے تھے۔ کسی ٹی وی چینل نے انہیں رمضان ٹرانسمشن نہیں دی۔ لیکن پرسنل ویڈیوز وائرل ہونا ان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔
آخری دنوں میں وہ تنہائی کا شکار ہوگئے تھے۔ صرف چند یو ٹیوبر صحافی تھے۔ جو ان کا انٹرویو لے لیتے تھے۔ مین سٹریم میڈیا انہیں بلاتا تک نہیں تھا۔ ان کے قریبی دوست وسیم بادامی کا کہنا ہے کہ ان کی 25 دن سے عامر لیاقت سے بات نہیں ہوئی تھی۔ دانیہ شاہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ عامر لیاقت، دانیہ سے صلح کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور اس سلسلے میں بہت جلد لودھراں آنے والے تھے۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے؟ اللّٰہ جانے۔
عامر لیاقت حسین کا جب تک پوسٹ مارٹم نہیں ہوجاتا۔ موت کی وجہ کا پتہ نہیں چل سکتا۔ لیکن اس بارے میں دو قیاس آرائیاں ہیں۔ پہلی یہ کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ دوسری یہ کہ کمرے میں جنریٹر کا دھواں بھر گیا تھا۔ جس سے موت ہوئی ہے۔
آخر میں بس اتنی دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ عامر لیاقت کی خطاؤں سے درگزر کرے۔ اور ان سے رحم کا سلوک کرے۔ اور پسماندگان کو صبر دے آمین۔
مجھے یقین ہے کہ عامر لیاقت جیسی شخصیت نہ کبھی ماضی میں تھی۔ اور نہ ہی شاید مستقبل میں ہو۔ آج کے نوجوان کل آنے والی نسلوں کو بتایا کریں گے کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے عامر لیاقت کو دیکھا ہوا ہے۔
لبنیٰ احسان