(پوائنٹ پاکستان)
طارق بشیر بٹ
آج بنگلہ دیش کو بنے اور پاکستان کو دولخت ہوئے پوری آدھی صدی ہو چکی ہے مگر ہم آج بھی کچھ سیکھنے سے قاصر ہیں ، ہم مسلسل تکبر کی زندگی گزار رہے ہیں کبھی رکوع کے انداز میں جھکنا نہیں سیکھا ، تکبر وہ پیاسا صحرا ہے جو تمام عالموں کا علم دریا کی طرح پی جاتا ہے ۔
دنیا بھر کی مہذب قومیں تاریخ سے سبق لیتی ہیں اور ہم تاریخ کو نہیں پڑھتے اور اگر پڑھتے ہیں تو سرکاری تاریخ پڑھتے ہیں جسے مطالعہ پاکستان کہا جاتا ہے ، جیسے اپنی سوانح عمری لکھنے والے صرف اپنی خوبیاں لکھتے ہیں اپنی زندگی کے سیاہ کارنامے لکھنے سے گریز کرتے ہیں ، انسانی فطرت میں یہ شامل ہے کہ وہ صرف اپنا مثبت چہرہ دکھاتا ہے ایسی تحریر یکطرفہ ہوتی ہے ، ہمیں زمینی حقائق کو نظر میں رکھتے ہوئے تاریخ کو دیکھنا ہوگا۔
ہم نے بنگلہ دیش کی آزادی سے اور پاکستان کے دولخت ہونے پر کچھ بھی نہیں سیکھا ، ہم نے جو سیکھا ہے وہ یہ کہ سختی اور قوت کے ساتھ ہر تحریک کو دبا سکتے ہیں ، عوام کو کچل سکتے ہیں ، اور اپنے اقتدار کو ہمیشہ کے لیے مستحکم کرسکتے ہیں۔
ہمارے لکھنے والے اپنا اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں کوئی قائد اعظم محمد علی جناح کو مورد الزام ٹہراتا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو کا نفاذ اس کی آزادی کی تحریک کی وجہ بنی ، کوئی لیاقت علی خان کی ہٹ دھرمی کا گلہ کرتا ہے ، کوئی مجیب الرحمن کو ہندوستانی لابی کا ایجنٹ قرار دیتا ہے تو کوئی ذولفقار علی بھٹو کو اس کا قصور وار ٹہراتا ہے ، کوئی فوجی قیادت کو مورد الزام ٹہراتا ہے ، آزادی کی تحریک اچانک نہیں پھوٹتی اس میں عرصہ درکار ہوتا ہے ، اب الزامات سے پرے ہٹ کر سوچنا ہوگا کہ اصل محرکات کیا تھے ، حمود الرحمن کمیشن میں بہت مواد موجود ہے اس سے بھی مدد لی جا سکتی ہے ۔
جب ہم پانچ ہزار سال پہلے موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیب پر تحقیق کر سکتے ہیں تو پچاس سال کا عرصہ کچھ بھی نہیں ہے ۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں اور اپنی رہی سہی سوچ کی قوت کو یکجا کرکے کوئی حل نکالیں ورنہ تاریخ دان ہمارے اوپر کتابیں لکھیں گے ۔
اب سوچ رہا ہوں کہ بنگالی بھائیوں کو مبارکباد پیش کروں یا اپنی بے بسی کا ماتم کروں ۔۔!!!




