عمران ریاض اگر 10 فیصد بھی صحافت کے اصولوں پر گامزن ہوتا تو آج ہم اس کے لیے ضرور آواز بلند کرتے مگر وہ اول و آخر ٹاؤٹ تھا جو جھوٹ کو پھیلانے کے علاؤہ کچھ بھی نہیں کرتا تھا۔ اس نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس کو فائلیں اور ویڈیو دکھائی جاتی تھی اور وہ اس پر پروگرام کرتا تھا اس نے کبھی ان ویڈیوز اور فائلوں کو کراس چیک کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کا لائف سٹائل اس کے مالی طور پر کرپٹ ہونے کا ثبوت ہے۔ پیسے لیکر لفظوں کی تجارت کرنے والا شخص قابل مذمت ہی ہو سکتا ہے نہ کہ قابل تعریف اور قابل رحم۔
مجھے نہیں پتہ کہ عمران ریاض کو کس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ کاتب وقت نے اسکو الفاظ کی بے حرمتی کی سزا دی ہے۔ عمران ریاض اس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جس نے اپنی چرب زبانی سے جھوٹ کو خوبصورتی سے سچ کا لبادہ پہنا کر نیم خواندہ عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کیا ہے ایسے لوگ معاشرے کے لیے ناسور ہیں۔
گستاخی حرمت حروف کی سزا ہے
مکافات عمل نہیں ہے اگر تو کیا ہے
جہانگیر اشرف