عامر لیاقت ہر فن مولا تھا
وہ اچھا ڈیبیٹر تھا ، نیوز کاسٹر تھا ، مصنف تھا ، شاعر تھا ، لکھاری تھا ، اینکر پرسن تھا، عالم بھی بنا، نعت خواں بھی تھا ، وہ ریٹنگ اسٹار تھا ، جو شو بھی کرتا اس کی ریٹنگ آتی تھی ۔
وہ مارننگ شوز، عالم اونلاین، انعام گھر اور رمضان ٹرانسمیشن کا میزبان تھا ، اس کے ہر شو کی ریٹنگ آتا تھی۔ جیو انٹرٹینمنٹ کی ریٹنگ اسی کے شوز سے آتی تھی ۔
لیکن کاش سیاست میں نہ آتا ، ذاتی زندگی کو میڈیا کی زینت نہ بناتا۔ تو آج شاید زندہ ہوتا ۔ ڈپریشن کا شکار نہ ہوتا۔
پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم این اے بننے کے بعد وہ زیادہ ڈپریسیڈ تھا۔ شاید وہ چھوٹی موٹی وزارات کا طلب گار تھا ، کیونکہ اسے ہر فیلڈ میں اپنا مقام پیدا کرنے کا شوق تھا ۔
وہ ہر کردار کو نبھانا چاہتا تھا ، لیکن یہ اسکی بدقسمتی تھی کہ سیاست وہ اچھے سے نہ کر سکا ، شادی جیسا رشتہ نبھا نہ سکا ۔ سیاست اور شادیاں اس کے ڈپریشن کا باعث بنیں ۔
عروج وزوال زندگی کا حصہ ہے، اس بندے پر بڑا عروج آیا، جب عروج تھا تو ٹی وی چینلز والے ترلے کرتے تھے عامر بھائی اس بار رمضان ٹرانسمیشن ہمارے چینل پر ، فلاں شو ہمارے چینل پر ۔
لیکن جب زندگی تنازعات کا شکار ہوئی ، زوال آیا تو بقول عامر لیاقت اس نے اس سال ہر چینل کے ترلے کئے کہ مجھے رمضان ٹرانسمیشن کرنے دیں لیکن کسی نے اجازت نہیں دی ۔
کیونکہ ہر جگہ عامر لیاقت کی ذات مزاق بنی ہوئی تھی ۔
خیر کبھی عامر لیاقت کی رمضان ٹرانسمیشن اور شوز میں بھی بڑے شوق سے دیکھا کرتا تھا، مجھے تو یہ بندہ ہر کردار میں ڈھل جانے والا انسان لگا ۔
دعا ہے کہ رب جنتاں وچ گھر دیوے آمین،
عمر بھنڈر