سرجیمیڈ ہسپتال اور چغتائی لیب کی مبینہ غفلت سے خاتون کے گردے فیل ہونے کا معاملہ

سرجیمیڈ ہسپتال اور چغتائی لیب کی مبینہ غفلت سے خاتون کے گردے فیل ہونے کا معاملہ

لاہور:( طاہر چودھری ایڈووکیٹ) ثمر کی بہن بیمار ہوئی تو وہ اسے سرجیمیڈ ہسپتال لے کر گیا۔ ہسپتال نے مریضہ کو داخل کر لیا اور ہسپتال کے اندر ہی موجود اپنی لیبارٹری سے اس کی بلڈ رپورٹ کروانے کا کہا۔ سیمپل دیے گئے۔ لیبارٹری نے رپورٹ دی کہ مریضہ کا بلڈ گروپ AB+ ہے۔ اس گروپ کے خون کا بندوبست کیا جائے۔ مریضہ کو ضرورت ہے۔ ثمر نے خود ایک بوتل خون دیا اور 4 اس کے جاننے والے دوستوں وغیرہ نے مہربانی کی۔ خون دینے والے ان پانچوں لوگوں کی بلڈ رپورٹ بھی اسی لیبارٹری سے کروائی گئی اور بتایا گیا کہ اوکے ہے۔ یہ خون مریضہ کو لگایا جا سکتا ہے۔ دو دن میں پانچ بوتلیں مریضہ کو لگائی گئیں۔ کچھ بہتر ہونے کی بجائے مریضہ کی حالت اچانک عجیب و غریب طریقے سے شدید بگڑنا شروع ہو گئی۔

ثمر اور اس کی فیملی پریشان ہوگئے۔ ڈاکٹرز سے پوچھتے تو وہ کچھ سیدھی بات نہ بتاتے۔ اسی دوران ہسپتال انتظامیہ اور علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو اپنے طور پر کچھ شبہ ہو گیا تھا کہ ان سے کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے۔ مریضہ کے خاندان کو تسلی دینے کیلئے کہا گیا کہ آپ مریضہ کا بلڈ سیمپل چغتائی لیب سے بھی چیک کروا لیں۔ ہسپتال نے یہ سیمپل چغتائی لیب بھجوایا۔ ثمر کا کہنا ہے کہ ہسپتال انتظامیہ کی ملی بھگت سے چغتائی لیب نے بھی وہی رپورٹ دی جو ہسپتال کی لیب نے دی۔ چند دن ایڈمٹ رکھنے کے بعد ڈاکٹرز نے کہا کہ مریضہ کے گردے فیل ہو گئے ہیں اور ڈسچارج کر دیا۔ ثمر اور اسکی فیملی کیلئے یہ خبر کسی بڑے طوفان سے کم نہ تھی کہ یہ کیا ہو گیا۔ مرض کوئی اور تھا۔ گردے کس طرح فیل ہو گئے۔ بھاگے دوڑے۔ عمر ہسپتال لاہور، سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کراچی اور پھر پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ لاہور۔۔۔۔ حالت جوں کی توں۔ اس دوران کچھ ڈاکٹرز نے شک ڈالا کہیں لگائے گئے خون میں تو کوئی مسئلہ نہیں تھا؟ کہ اس طرح اچانک گردوں کا فیل ہوجانا مشکوک ہے۔

اسی شک کو ذہن میں رکھتے ہوئے ثمر نے ایک بار پھر اور خود اپنے طور پر چغتائی لیب سے اپنی بہن کے خون کے نمونوں کی جانچ کروانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم اس بار اس نے یہ رپورٹ چغتائی لیب کی کسی اور فرنچائز سے کروائی۔ اس رپورٹ کا رزلٹ ثمر اور اس کی فیملی کیلئے کسی جان لیوا صدمے سے کم نہ تھا۔ بہن کا بلڈ گروپ AB+ نہیں بلکہ B+ تھا۔ سرجیمیڈ کے ڈاکٹرز نے غلط رپورٹ دے کے مریضہ کو غلط خون لگا دیا اور وہ بھی 5 بوتلیں۔ مریضہ کے گردے ناکارہ ہو گئے اور وہ اب موت کے بستر پر ہے۔

ثمر اور اسکی فیملی روتے پیٹتے سرجیمیڈ ہسپتال گئے۔ انتظامیہ اور متعلقہ ڈاکٹرز نے کیا کرنا تھا۔ وہی روٹین کی باتیں۔ غلطی ہو جاتی ہے۔ اللہ کی رضا وغیرہ۔ تاہم یہ غلطی تحریری طور پر تسلیم نہیں کی گئی اور نہ ہی تحریری معافی مانگی گئی۔

ثمر نے ہیلتھ کیئر کمیشن میں سرجیمیڈ ہسپتال اور چغتائی لیب کیخلاف شکایت درج کرا دی کہ اول الذکر کی وجہ سے اس کی بہن موت کے بستر پر ہے اور موخرالذکر نے جرم چھپانے کیلئے سہولت کاری کا کردار ادا کیا۔

ہیلتھ کیئر کمیشن نے درخواست پر کوئی کارروائی نہ کی تو ثمر کو لاہور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کرنا پڑی۔ ہائیکورٹ نے ہیلتھ کیئر کمیشن کو ڈائریکشن دی کہ درخواست پر فیصلہ کیا جائے۔ کمیشن نے الزام علیہان سے جواب مانگا۔ انہوں نے بتایا کہ قانون کے مطابق متاثرہ شخص کو شکایت کے دو مہینے کے اندر درخواست جمع کروانی چاہئے تھے۔ چونکہ متاثرہ شخص نے قانون میں مقرر کردہ وقت کے اندر درخواست جمع نہیں کروائی اسلئے یہ خارج کی جائے۔ یہ اور اسی سے ملتے جلتے اعتراضات۔ مزید کچھ عرصہ اپنے پاس رکھنے کے بعد ہیلتھ کیئر کمیشن نے ثمر کی درخواست یہ کہہ کر خارج کر دی کہ آپ دادرسی کیلئے مقررہ وقت کے اندر نہیں آئے لہذا آپ کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔
اس موقع پر یا شاید اس سے پہلے ثمر نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ میں نے اسے کہا تھا کہ آپ دفتر چکر لگائیں۔ کسی دن بیٹھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا مناسب ہے۔ تاہم ثمر اپنی مصروفیات کی وجہ سے ملاقات نہ کر سکا۔ اس دوران یہ ایشو سوشل میڈیا پر بھی ہائی لائٹ کیا جاتا رہا اور مخلتف احتجاج بھی۔ ثمر نے اس دوران اپنے کسی جاننے والے کے کہنے پر ایک وکیل صاحب سے رابطہ کیا۔ جنہوں نے ہیلتھ کیئر کمیشن کے اس فیصلے کیخلاف اپیل دائر کی۔ یہ اپیل خارج کر دی گئی کہ قابل سماعت نہیں ہے۔ ثمر نے دوبارہ مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے کہا کاغذات لے کر چکر لگائیں میری طرف۔ ملاقات ہوئی۔ کاغذات دیکھے تو پتہ چلا کیس کو بہتر طریقے سے ہینڈل نہیں کیا گیا۔ یہی بات ثمر نے بھی بتائی۔ کیس میں کیا کمیاں، کوتاہیاں رہیں یہاں ڈسکس نہیں کروں گا۔

خیر ثمر کو ساری صورتحال بتائی کہ ہم ہائیکورٹ میں چانس لیتے ہیں۔ ہم نے ابتدائی بحث کے بعد یہ رٹ سماعت کیلئے منظور کروا لی اور سرجیمیڈ ہسپتال اور چغتائی لیب انتظامیہ کو عدالت طلب کروا لیا تو یہ بھی ہماری پہلی بڑی کامیابی ہو گی۔ یہ کیس آج لاہور ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر تھا۔ میں متاثرہ فیملی کی طرف سے پیش ہوا۔ بہت عاجزی سے کہتا ہوں کہ میں معزز جج صاحب کو اپنی بات سمجھا پایا۔ انہوں نے رٹ سماعت کیلئے منظور کی اور الزام علیہان کو طلب کیا ہے۔ میں نے اس کیس کیلئے ثمر سے اپنی فیس نہیں لی۔ اور نہ لوں گا۔ اگر متاثرہ فیملی کی کسی طرح دادرسی کروا سکا تو یہ میرا کنٹریبیوشن ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے کوششیں جاری رکھی جائیں گی.پیشنٹ ویلفیئر سوسائٹی

ہم وکیلوں کے پاس ڈاکٹروں کی غفلت کے کیسز بہت کم آتے ہیں۔ وجہ؟ ڈاکٹر کی غفلت سے ہونے والی بہت ساری اموات کو اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔ دوران علاج مجرمانہ غفلت برتنے والے ڈاکٹروں کی پکڑ کیلئے ہمارا موجودہ قانون بھی بہت کمزور ہے۔ اور مزید یہ کہ ہسپتالوں میں لاکھوں لٹانے والے زیادہ تر متاثرہ خاندان اب وکیلوں کی فیسیں بھی دیں، اسلئے عدالت نہیں آتے۔ اور پھر ہمارا یہاں کا سسٹم۔

خیر! اوپر بیان کئے گئے کیس میں سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہسپتال انتظامیہ نے ہیلتھ کیئر کمیشن میں اپنے جواب میں بجائے کسی شرمندگی کا اظہار کرنے کے الٹا ثمر پر الزام لگایا کہ وہ یہاں آکر انہیں دھمکیاں دیتا رہا۔
اپنے دل پر ہات رکھ کر بتائیں۔ مصیبت کی ماری ایک فیملی سرجیمیڈ یا چغتائی لیب کو کیا دھمکیاں دے سکتی ہے؟ طاقتور کے سامنے کمزور زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتا ہے؟ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے سوا؟ آپ نے ایک مریض کو غلط خون لگا کر موت کے منہ میں دھکیل دیا اور بدلے میں کہتے ہیں کہ کوئی آپ کو اف تک نہ کہے؟ شان میں گستاخی ہوتی ہے۔ بجائے اس کے کہ ذمہ داروں کو سامنے لاتے کہ کس کی غفلت کی وجہ سے یہ غلط بلڈ رپورٹ جاری ہوئی اور مریضہ کو غلط خون لگا، آپ قانون کی باریکیوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں؟ ضمیر نامی کوئی چیز بھی ہے یا نہیں؟

ثمر نے بتایا کہ اس نے اپنے کسی جاننے والے کے ذریعہ یہ معاملہ پنجاب اسمبلی میں سامنے لانے کی کوشش کی۔ اس پر بات بھی ہو گئی کہ ایک رکن اسمبلی اس حوالے سے ایوان میں قرار داد لائیں گی لیکن جب معاملہ ایوان کے ایک اہم عہدیدار کے نوٹس میں آیا تو انہوں نے سرجیمیڈ کیخلاف قرار داد لانے سے منع کر دیا۔ وجہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ رشتہ داریاں اور تعلقات۔

خیر، میں اور میرے دوست ثمر کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اپنی اخری حد تک کوشش کریں گے کہ اس کی دادرسی کروا سکیں۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے سوائے اس کے کہ متاثرہ فیملی ہمیں خود کہہ دے کہ وہ یہ کیس نہیں لڑنا چاہتے۔ ثمر کو آںے والے دنوں میں شاید آپ کی بھی ضرورت پڑے۔ ہم سب اس کے ساتھ ہیں۔ ہم اس کے احتجاج میں شامل ہیں۔
کیا چغتائی لیب اتنے بڑے ہسپتال کے کہنے پر ان کی مرضی کی رپورٹ جاری نہیں کر سکتا؟ کل کی ہی ایک خبر پیش ہے۔ گزشتہ روز لاہور میں ایک چغتائی لیب کو سیل کیا گیا ہے۔ (ڈیفنس، لالک جان فرنچائز) چغتائی لیب بیرون ملک جانے والوں کو پیسوں کے عوض جعلی کرونا سرٹیفکیٹ بنا کر دیتی تھی۔ گزشتہ روز اس فرنچائز کو سیل کیا گیا۔ سامان قبضے میں لیا گیا ہے اور مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ثمر اپنی بہن کا ٹرانسپلانٹ کروانے جا رہا ہے۔ دعا ہے یہ سب کامیابی سے ہو۔ بہن صحتیاب ہو۔ لیکن اسے اس حالت میں پہنچانے والوں کا حساب ہو۔ہم ثمر کے ساتھ ہیں۔

طاہر چودھری ایڈووکیٹ

طاہر چودھری، ایڈووکیٹ ہائیکورٹ، لاہور۔(03336669850)

اپنا تبصرہ بھیجیں