ہم پس ماندہ کیوں ہیں؟ تحریر: جہانگیر اشرف

ہم پس ماندہ کیوں ہیں؟

ہمارے اکثر مذہبی راہنماء یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ دنیا کی دولت اور معیشت پر اہل یہود کا قبضہ ہے اور ہمارے خلاف قوم یہود سازشوں میں مصروف ہے۔ اس مفروضے کا حقیقت سے ذرا برابر تعلق نہیں ہے۔

قوموں کا عروج و زوال ان کے اپنی محنت اور اعمال پر منحصر ہوتا ہے۔ دنیا کی کل آبادی میں یہودیوں کی تعداد صرف 14.7 ملین یعنی تقریباً 15 کروڑ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 0.19 فیصد ہے جبکہ عیسائی 2.4 بلین 31.1 فیصد، مسلمان 1.96 بلین 24.9 فیصد، ہندو 1.2 بلین 15.2 فیصد جبکہ باقی چھوٹے چھوٹے مذاہبِ اور دہرایت پر یقین رکھنے والے انسان ہیں۔ کیا 15 کروڑ یہودی تقریباً 8 ارب انسانوں کو معاشی غلام بنا سکتے ہیں۔

آ بادی کے تناسب کے لحاظ سے ہر چار انسانوں میں سے ایک مسلم ہے جبکہ تعلیم، سائنس اور تجارت میں ہم سب سے پیچھے ہیں۔ عیسائیوں میں خواندگی کی شرح 91 فیصد یہودیوں میں 99 فیصد ہندوؤں میں 59 فیصد جبکہ مسلمانوں میں 41 فیصد ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ سو مسلمانوں میں سے 59 مسلمان بالکل لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔ جبکہ ہائیر ایجوکیشن میں عسائیوں کا تناسب 36.9, یہودیوں میں 61، ہندوؤں میں 24.2 جبکہ مسلمانوں میں 13.8 فیصد ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کے 100 میں سے تقریباً 14 افراد کالج کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اب اگر دنیا کا سب سے بڑے ایوارڈ نوبل پرائز جو کہ سائنس، معیشت، ادب اور امن پر دیا جاتا ہے کی بات کریں تو عیسائی مفکرین 2790 ایوارڈ جیت چکے ہیں جبکہ یہودی 900، ہندو 12 جبکہ مسلمان 13 نوبل پرائز کے حقدار قرار پائے۔ 13 میں سے سائنسی علوم پر تین ایوارڈ ملے جس میں ایک ڈاکٹر عبدالسلام کا ہے جس کو ہم مسلمانوں میں شمار نہیں کرتے۔

اسطرح اگر ہم دنیا کی دولت کی تقسیم دیکھیں تو دنیا کی کل دولت میں سے 55 فیصد عسائیوں کے پاس ہے جبکہ 3.3 فیصد ہندوؤں کے پاس ہے مسلمان کے پاس 5.8 اور یہودیوں کے پاس 1.1 فیصد دولت ہے باقی ماندہ دولت چھوٹے مذاہبِ اور دہرایت کو ماننے والوں کے پاس ہے۔

اگر ہم مندرجہ بالا حقائق کو دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہم آبادی کے تناسب کے لحاظ سے تعلیم، سائنسی تحقیق اور تجارت میں عسائیوں، یہودیوں اور ہندوؤں میں کوسوں میل پیچھے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہماری بھی عزت ہو تو ہم کو بھی تعلیم، سائنسی تحقیق اور تجارت میں اپنی آبادی کے تناسب سے حصہ ڈالنا ہو گا۔

دنیا میں اس وقت 58 مسلم ممالک ہیں کیا یہ ایک ایک سائنسی تحقیق ادارہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، کیا یہ باہمی تجارت کو فروغ نہیں دے سکتے۔ ایسا ممکن ہے مگر اس رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلم دنیا میں آمریت اور فوجی جنرلز کا نظام حکومت پر قبضہ ہے۔ ان لوگوں کے اقتدار کے لیے تعلیم زہر قاتل ہے اور عوام الناس کو غربت میں رکھا جائے تو ان کے اقتدار کو دوام ملتا ہے۔ پڑھے لکھے اور تونگر شخص کو غلام بنانا آسان نہیں ہوتا۔
جہانگیر اشرف

اپنا تبصرہ بھیجیں