میں مسلم لیگ ن میں کیوں شامل ہوا؟ تحریر: احمد جواد

میں مسلم لیگ ن میں کیوں شامل ہوا؟

یہ ہے وہ سوال جو مجھ سے بار بار کیا جاتا ہے، سوال جب بھی تمیز کے دائرے میں ہو، ہر سیاست دان کا فرض ہے کہ اُسکا جواب دے۔ میں کوئ کرکٹ ٹیم کے کسی ریٹائرڈ کپتان کی طرح نہیں ہوں اور نا ہی سلیکٹڈ ہوں جو عوام کو جواب دہ نہیں۔

قائداعظم نے کانگریس سے آزادی کی جدوجہد کی، پھر اُنہیں یقین ہو گیا کہ کانگریس کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کیلئے کچھ حاصل نہیں ہو گا، تو انہوں نے مسلم لیگ جوائن کر لی۔اسے سیاسی شعور کا سفر کہتے ہیں، جو ہر عقل اور سمجھ رکھنے والا وقت کے ساتھ طے کرتا ہے۔علامہ اقبال نے ایک لمبا عرصہ کانگریس میں گزارہ۔ان کی مشہور زمانہ نظم “سارے جہاں سے اچھا، ہندوستان ہمارا” ایک متحدہ ہندوستان کا خواب جو پھر وقت کے ساتھ مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کے قیام پر پہنچ گیا۔

محدود سوچ، لا علم اور بزدل لوگ بہرحال یہ سفر کبھی نہیں کر سکتے اور جو ایسا سفر کرنے کی جرات رکھتے ہیں، یا تو انگشت بدنداں ہو جاتے ہیں یا پھر حسد میں مبتلا ہو کر جملے کستے ہیں۔

میں نے تحریک انصاف کو ایک عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی کا پلیٹ فارم سمجھا لیکن ساڑھے تین سال کی حکومتی کارکردگی دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ بہادر شاہ ظفر کے بعد یہ تارحخ کی نالائق ترین حکومت ہے، جو کرپشن اور مافیاز کے سہارے کھڑی ہے، جس کی ناکامی کی وجہ ٹیم سے زیادہ ٹیم لیڈر ہے،جہاں احتساب کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا گیا، ساڑھے تین سال کے بعد ان کا اوپننگ بیٹسمین شہزاد اکبر آؤٹ ہو چکا ہے اور احتساب، پریس کانفرنس اور ٹاک شوز تک ہی محدود رہا، فیصل واڈہ کے جھوٹ کو اسی حکومت نے پوری سرپرستی دی، اُسے بچانے کی پوری کوشش کی، یہ حکومت عام آدمی کیلئے بلکہ پیسے والوں کی محافظ ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے قرضے لیے گئے، سب سے زیادہ روپے کی بے توقیر ی ہوئ، سب سے زیادہ پٹرول مہنگا ہوا، سب سے زیادہ مہنگائ ہوئ، سب سے زیادہ کرپشن ہوئ، سب سے زیادہ میڈیا پر پابندیاں لگیں، سب سے زیادہ کردار کشی ہوئ، جس سے معیشت تباہ ہو گئی اور پاکستان آج اپنی معاشی آزادی کھو رہا ہے، ایک جنریشن کا اخلاق تباہ ہو گیا، اور معاشرہ گروہوں میں بٹ گیا، مذہبی انتہا پسندی عروج کو پہنچ گئی،کرپشن میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی بیس درجے تنزلی نے پاکستان کو کرپٹ ترین ملکوں کی صف میں کھڑا کر دیا۔ اظہار آزادی میں دنیا کے بدترین ممالک کی فہرست میں آ چکا ہے، اسی حکومت کے دور میں۔

علی امین گنڈا پور، شہباز گل، فواد چوہدری، خسرو بختیار، شیخ رشید، مراد سعید، بزدار اور محمود خان اب اس پارٹی کی پہچان ہیں، پاکستان کا کوئ با شعور اور مخلص آدمی ایسے لیڈرشپ کے ساتھ کیسے کام کر سکتا ہے جو عوام میں اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔

جب ریحام خان کی کتاب کا ایک صفحہ کسی کیلئے کلنک کا ٹیکہ بن جاۓ، جسکا ذکر آپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے جا سکتا ہے؟

بیس سال پہلے میں اور میرے جیسے لاکھوں عمران خان کے سحر میں گرفتار ہو کر نظام کی تبدیلی کے خواب دیکھنے لگے۔ حکومت میں آنے کے بعد بھی جب ڈاکو اور چور کا بیانیہ جاری رہا تو احساس ہوا کہ اس حکومت کے پلے کچھ نہیں؟ حکومت میں آنے کے بعد جو لیڈرشپ الزامات کی سیاست کرے، اُسکا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام تر حکومتی مشینری ہونے کے باوجود الزامات ثابت نہیں کر سکتے اسلیے الزامات لگا کر قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔آج ساڑھے تین سال کے بعد چور اور ڈاکو کے الفاظ اب صرف ایک افسانہ بن کے رہ گئے ہیں، اس کا کریڈٹ اسی حکومت کو جاتا ہے۔

عمران خان کی لیڈرشپ سے مکمل طور پر مایوس ہونے کے بعد میں نے ایک ایسے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا جس کی لیڈرشپ لو تین دھائیوں سے کرپٹ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ، اور ہر دفعہ کچھ بھی ثابت نا ہو سکا، جس کی لیڈرشپ کے موٹروے، میٹرو، اورنج ٹرین، انڈر پاس، فلائ اوور، ائر پورٹس، راوی اربن جیسے پراجکٹس کو سالوں تک تنقید کا نشانہ بنایا گیا اوردھائیوں کے بعد پھر ان کے ہی ویژن کو اپنا لیا گیا، اور اپنے نام سے اُسے مارکیٹ کیا جانے لگا۔

نواز شریف علاقائی امن و سلامتی کے ویژن پر عملدرآمد کرتے ہوۓ واجپائی کو مینار پاکستان کے ساۓ میں لے آۓ تو اُسے انڈیا کا یار اور غدار قرار دیا گیا اور آج بیس سال بعد اس ملک کی سول اور ملٹری لیڈرشپ بھارت سے اچھے تعلقات کیلئے تیار بیٹھی ہے۔مودی بھی چل کر نواز شریف سے ملنے آیا اور اسے مودی کا یار کہا گیا، آج مودی کی کال کا انتظار ہے، لیکن کال نہیں آ رہی۔ آج مودی کو متوجہ کرنے کیلئے اُسے مناظرے کی دعوت دی جا رہی ہے، میں نے کبھی اپنے زندگی میں نہیں سنا کہ ایک ملک کا حکمران دوسرے ملک کے حکمران کو مناظرے کی دعوت دے، شاید عمران نیازی حکومت کرنے کو صرف تقاریر، پریس کانفرنس، ٹاک شوز، ترجمانوں کے اجلاس اور مناظرے سمجھتے ہیں۔

“ووٹ کو عزت دو” صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ دنیا کے ہر اُس ترقی یافتہ معاشرے کی پہلی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر عظیم قومیں بنتی ہیں۔ یہ ہر پاکستانی کی ضرورت ہے، اگر ووٹ کو عزت مل گئی تو ہر ووٹر کو عزت اور برابری ملے گی، میڈیا کو آزادی ملے گی، قانون کو حکمرانی ملے گی،انصاف کا کلچر بنے گا۔”ووٹ کو عزت دو” پاکستان کے ہر شہری کی آواز ہے، ہمارے مسائل کا حل ہے، ہمارے مستقبل کی ضرورت ہے۔ میں پاکستان کے ہر محب وطن شہری کی طرح اس پیغام کا سپورٹر ہوں۔

نواز شریف ایک بدترین امتیازی احتساب کا نشانہ ہے، نوازشریف کو اگر تسلسل کے ساتھ کام کرنے دیا جاتا تو شاید ہم بھی آج ترکی کی صف میں کھڑے ہوتے۔

پاکستان ۲۰۱۷-۲۰۱۸ میں پاکستان کی سب سے بڑی گروتھ 6.1 % حاصل کر چکا تھا، ۲۰۱۸ میں پی ٹی آئ کی حکومت آئ اور آج تک چار سال کے بعد بھی دوبارہ وہ گروتھ حاصل نا کی جا سکی۔

میں نے اب ایک ایسی جماعت کو جوائن کیا جو آج بھی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہے، اگر اس ملک میں صاف شفاف الیکشن ہوں۔اس جماعت کو ایک مہم کے تحت ٹارگٹ کیا گیا لیکن عوام نے اس مہم اور پروپگینڈے کو رد کر دیا ہے۔آج تمام سروے مسلم لیگ ن کو پاکستان کی مقبول ترین جماعت بتا رہے ہیں، پی ٹی آئ ساڑھے تین سال کے بعد کوئ ایک نام نہیں پیدا کر سکی جو شہباز شریف، احسن اقبال، شاہد خاقان،محمد زبیر، اسحاق ڈار جیسی قابل ٹیم کا مقابلہ کر سکے۔ پاکستان کا بہترین وزیر خزانہ تو وہ جس نے ۵ سال تک پاکستان کے روپے کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رکھا اور جس کے جانے کے بعد پاکستانی روپیہ پچاس فیصد قدر کھو بیٹھا۔

سی پیک کا بانی نوازشریف ہے جس کے ویژن کو چینیوں نے اعتراف کیا۔میں نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہوں اور عمران خان اور پی ٹی آئی کا ساتھ دینے پر شرمندہ ہوں، اسکا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔مجھے پرانا پاکستان چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں