سو سے زائد بچوں کے قاتل جاوید اقبال کی کہانی ، خاور نعیم ہاشمی نے بڑے انکشافات کر دیئے

لاہور:(پوائنٹ پاکستان)سو سے زائد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد تیزاب کے بڑے ٹب میں ڈبو کر قتل کرنے والے درندے جاوید اقبال نے روزنامہ جنگ کے دفتر میں ایڈیٹر خاور نعیم ہاشمی کے سامنے گرفتاری دی تھی۔

سنیئر صحافی خاور نعیم ہاشمی نے سو سے زائد بچوں کے قاتل جاوید اقبال کی اصل کہانی سنا دی ہے۔ انہوں نے اپنے یوٹیوب چینل پر کہانی سنائی ہے کہ وہ روزنامہ جنگ کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بھاری بھرکم لفافہ ملتا ہے ، وہ اسے کھولتے ہیں تو 100 سے زائد بچوں کے پاسپورٹ سائز کی تصاویر بکھر جاتی ہیں ، تصاویر کی پچھلی سائڈ پر بچوں کے نام لکھے ہوتے ہیں۔لفافے میں تصاویر کے ساتھ ایک خط بھی ہوتا ہے جس میں جاوید اقبال لکھتا ہے کہ وہ ایڈیٹر روزنامہ جنگ کے سامنے اعتراف جرم کرتے ہوئے پولیس کو گرفتاری دینا چاہتا ہے۔ اسی خط میں ملزم نے اپنا فون نمبر بھی لکھا ہوتا ہے۔

صحافی خاور نعیم ہاشمی ملزم جاوید اقبال کو کال کر کے دفتر آنے کا کہتے ہیں۔جب بچوں کا قاتل جاوید اقبال دفتر آتا ہے تو اس کے ساتھ ایک 15 برس کا نوجوان بھی ہوتا ہے،جاوید اقبال بچوں کو قتل کرنے کی کہانی سناتا ہے ۔

خاور نعیم ہاشمی کرائم رپورٹر کو پولیس سے رابطہ کرنے کو کہتے ہیں ، اس دوران ملٹری انٹیلیجنس چیف خالد شمیم وائیں کا فون آتا ہے ، ملٹری انٹیلیجنس چیف فون پر کہتا ہے کہ ہمیں خبر ملی ہے کہ جاوید اقبال آپ کے دفتر میں بیٹھا ہوا ہے، جس پر خاور نعیم ہاشمی کہتے ہیں جی وہ ان کے سامنے ہی بیٹھا ہوا ہے۔ ملٹری انٹیلیجنس چیف کہتا ہے اسے پولیس کے حوالے نہ کرنا ایم آئی پولیس ابھی دس منٹ میں پہنچ رہی ہے ، ملٹری انٹیلیجنس چیف نے فون پر کہا کہ اسے اگر پولیس کے حوالے کیا تو پولیس والےجعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیں گے ۔

صحافی خاور نعیم ہاشمی نے بتایا کہ تفوڑی دیر ملٹری پولیس پہنچ گئی اور ملزم جاوید اقبال گرفتار کر لے گئے۔

صحافی نے بتایا کہ پورے لاہور کو خبر مل چکی تھی کہ 100 بچوں کا قاتل جنگ اخبار کے دفتر میں گرفتاری دینے کے موجود ہے ، لاہور کے شہری سڑکوں پر نکل آئے تھے ، جنگ دفتر کے باہر عوام کا ہجوم موجود تھا۔

صحافی خاور نعیم ہاشمی مزید بتاتے ہیں کہ جاوید اقبال نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ ایک رسالہ شائع کرتا تھا ، پولیس کا مکبر بھی تھا ، رسالے میں مختلف افسران کے انٹرویو شائع ہوتے تھے، دو چار افسران اس کے بارے میں سب جانتے تھے ۔

صحافی خاور نعیم ہاشمی نے یہ بھی بتایا کہ ملٹری انٹیلیجنس نے قاتل جاوید اقبال کو بعد میں پولیس کے حوالے کر دیا تھا ،عدالت نے قاتل کو عجیب و غریب سزا سنائی کہ قاتل کو چھت سے گرانے اور لاش کو جانوروں اور پرندوں کو کھانے کے چھوڑ دیا جائے ۔ سزا کے فیصلے کے چند روز بعد خبر ملی کہ مجرم اور اس کے ساتھی نے جیل میں خودکشی کر لی ہے ۔

واضح رہے سو سے زائد بچوں کے قاتل جاوید اقبال کی زندگی اور اس واقعے پر بنائی گئی فلم کو نمائش روک دیا گیا تھا۔ فلم ‘ جاوید اقبال ان ٹولڈ اسٹوری آف اے سریل کلر ‘ 28 جنوری کو ریلیز ہونا تھی تاہم پنجاب حکومت نے آخری وقت میں ایک خط کے ذریعے اس کی نمائش کو روک دیا تھا۔ فلم میں اداکار یاسر حسین اور عائشہ عمر مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں ۔سوشل میڈیاپر  فلم کی نمائش پر  پابندی کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں