جنات اگر کچھ کر سکتے تو لاپتا افراد کو بازیاب کرواتا : طاہر چودھری ایڈووکیٹ

میرا اسکول کا ایک دوست تھا۔ اس کے والد جنوں چڑیلوں کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے قبضے میں کئی جن تھے۔ ایک دن ان کے گھر گیا تو ایک شیلف پر ڈھکن بند خالی بوتلیں ترتیب سے پڑی ہوئی تھیں۔ پوچھا یہ خالی بوتلیں اتنے اہتمام سے کیوں سجا کر رکھی ہوئی ہیں۔ بولا ان میں والد صاحب نے جن قید کر کے رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کیا جن بہت طاقت والے ہوتے ہیں؟ کہنے لگا ہاں، ناممکن کو بھی بھی ممکن کر دکھاتے ہیں۔ میں نے کہا پھر یہ بوتل کا معمولی سا ڈھکن کھول کر آزادی کیوں نہیں حاصل کرتے؟ کیوں قید بھگت رہے ہیں۔ اس چھوٹی سی بوتل کے جہنم میں رہ رہے ہیں؟ اس نے بتایا کہ عمل کیا ہوا ہے۔ نہیں آزاد ہو سکتے۔ بچپن تھا۔ عقل پوری سی تھی۔ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بات ماننا ہی پڑی۔ ایک بندہ جس کے قبضہ قدرت میں کئی جن تھے اور وہ جن کی مدد سے کئیوں کے بگڑے ہوئے کام سنوارتا تھا اور آج بھی لوگوں کی مرادیں پوری کرتا ہے، کے اپنے گھر کے حالات بہت برے ہیں۔
شاہ محمود قریشی ایک بہت بڑی گدی کا سجادہ نشین ہے۔ عرس پر آئے مرد و زن کو شفائیں بانٹتا، قینچی سے بالوں کی لٹ کاٹ کر نحوست اتارتا ہے جبکہ خود کا یہ حال ہے کہ اپنا ہی سگا اور اکلوتا بھائی گالیاں دیتا اور اس پر لوٹ مار کے الزام لگاتا ہے۔
جس معاشرے میں جہالت زیادہ ہے اس معاشرے میں ایسے کاروبار بھی زیادہ ہیں۔ عقیدت اور تقدس کی پٹی باندھ کر لوگوں کو لوٹنا انتہائی آسان ہے۔
جن اگر کچھ کر سکتے ہوتے تو میں ان سے اپنے علاقے کی صفائی کرواتا۔ کوڑے کے ڈھیر اٹھواتا۔ گند ختم ہوتا۔ جراثیم اور بیماریاں کم ہوتیں۔ میں ان جنوں سے عرصے سے بند ابلتے، گندے اور بدبودار نالے صاف کرواتا۔ میں ان سے غربت ختم کرواتا۔ لاپتہ افراد کو بازیاب کرواتا۔ انصاف نہ دینے والے ججوں کو غائب کرواتا۔ کلائنٹ سے زیادتی کرنے والے وکیلوں کو الٹا لٹکاتا۔ جعلی اسٹنٹ ڈالنے والے ڈاکٹروں کی لکیریں نکلواتا۔ بچہ بازی کرنے والے مولویوں کے ساتھ خود جنوں کے ذریعے ہی وہی فعل کرواتا۔ کاش میرے قبضے میں کوئی جن ہوتے۔ اگر کسی صاحب کے پاس ہیں تو میرا ان سے رابطہ کروا دیں میں ان سے یہی کام کرنے کی درخواست کروں گا۔
یہ سب جھوٹ بازاری ہے۔ لوٹ مار کا طریقہ۔
ہم عرصے سے اہل کفر کی تباہی و بربادی کی اجتماعی دعائیں مانگتے ا رہے ہیں۔ میں ان جنوں سے کم از کم ٹرمپ کی ٹانگ تڑواتا۔ یہاں موجود زمینی خداؤں کو ناکوں چنے چبواتا۔ لیکن نہیں۔ ان جنوں کا پڑھے لکھے اور طاقتور لوگوں پر بس نہیں چلتا۔ ان کی شکتیوں اور ماورائی قوتوں کی پہنچ بھی بس جاہل اور غریب تک ہی ہے۔
طاہرچودھری۔

اپنا تبصرہ بھیجیں